شانِ مصطفی ملین مارچ کراچی کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج

Million March Karachi

Million March Karachi

تحریر: میرافسر امان
بلاشبہ جماعت اسلامی کا شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملین مارچ کراچی کی تاریخ کا ایک بہت بڑا ملین مارچ ہے۔یہ اجتماع فرانس اور امریکا میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عزم الشان شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملین مارچ میں کراچی کے لاکھوں مردو خواتین، بچے،بزرگ اورجوان، وکلا،صنعت کار اور تاجر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت میں سرشار ہو کر سڑکوں پر نکل آئے۔ میڈیا حسب معمول اس بڑے پروگرام سے ناانصافی کرتا رہا۔ ایک برطانوی شہری کے پروگرام کو چھ چھ گھنٹے چلاتا ہے۔ جس کی تقریر کا کبھی بھی سر پائوں نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ مگر کیا کیا جائے میڈیا کی اپنی مجبوری ہے اگر نہ دیکھائے تو اس کی خیر نہیں۔ شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملین مارچ والے تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاہنے والے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو جانی دشمنوں سے بھی رواداری برتنے والے تھے۔

شانِ مصطفیٰ والے تو میڈیا کو کبھی بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اہل کراچی نے ثابت کر دیا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کرتے ہیں۔ یہ پیغام ہے تمام گستا خوں کو کہ امت مسلمہ اُن کے انجام تک پیچھا کریں گے ملین مارچ سبیلنا سبیلنا الجہاد الجہاد،ناموس رسالت پر جان بھی قربان ہے کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ نیپا چورنگی سے حسن اسکوئر تک کی سڑک کی دونوں طرف کراچی کے عوام سے بھری پڑی تھی۔ انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ ان میں بوڑھے اورجوان،مرد ،خواتین اور بچے شامل تھے۔ شان مصطفی ۖ ملین مارچ کا آغاز تلاوت قرآن سے شروع ہوا۔ اس کے بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ترانہ پیش کیا گیا۔مارچ میںعالم اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی کے خلاف غم غصے کا اظہار کیا گیا۔ملین مارچ میں ہر طرف کلمہ طیبہ کے پرچم ہی پرچم نظر آ رہے تھے۔ مرد خواتین ، معصوم بچوں کے ماتھوںپر لبیک یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی پٹیاں باندھی ہوئیں تھیں۔مارچ میں مسلسل نعرہ تکبیر،اللہ اکبررہبر راہنما، مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصطفی۔ خاتم انبیا،مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لگائے جا رہے تھے۔امریکا کا جو یار ہے،غدار ، غدارہے کہ نعرہ بھی لگایا جا رہا تھا۔مارچ کے شرکا نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جن پرنعرے درج تھے کہ مسلمان حکمرانوں مغرب کی سازشوں کے خلاف کب اُٹھ کھڑے ہونگے۔عالم اسلام کے حکمران ہوش کے ناخن لیں۔گستاخ اخبار پر پابندی لگائی جائے۔

او آئی سی اپنا کردار ادا کرے۔ کراچی کے جوان ،مرد خواتین تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میدان میں نکلنے کے لیے تیار ہے۔نیپا چورنگی سے حسن اسکوئر تک سڑک ، کھمبوں اور عمارتوں پر جماعت اسلامی پرچم لہرا رہے تھے۔وقت سے پہلے ہی لاکھوں عوام بسوں، کوچوں، موٹر سائیکلوں ،ٹرکوں،رکشوں اور پیدل نیپا چورنگی سے حسن اسکوئر تک جمع ہو گئے تھے۔مارچ کی تشہیر کے لیے جماعت اسلامی کراچی نے پورے شہر کی اہم شاہ راہوںاور چورنگیوں پر اسقبالیہ کیمپ لگائے تھے۔ پورے شہر کو مارچ کے بینروں سے سجایا گیا تھا۔ان سے لوگوں کو مارچ میں شرکت کی اپیل کی جاتی رہی تھی۔ مارچ کو سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان نے خطاب کے دوران کہا کہ فرانس معافی مانگے۔پاکستان کی حکومت او آئی سی کا اجلاس بلائے۔ پاکستان میں تمام سیاسی دینی جماعتوں کو یکجاہ کرے۔ مگر حکومت ایسا نہ کر سکی۔ تو سراج الحق نے پورے عالم اسلام سے رابطہ کر کے ان کو اس معاملے پر اکٹھا کیا۔

Terrorist

Terrorist

پوری اسلامی دنیا میں احتجاج کیا گیا۔ اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معمولی واقعہ نہیں۔اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔امریکا اور اس کے حواری ہمیں امن کا درس دینے کے بجائے دہشت گردوں کی سرپرستی بند کریں۔دنیا کا امن تباہ کر دیا گیا ہے۔گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاآخری دم تک پیچھا کریں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریک کو آگے بڑھائیں۔ لندن کا شہری ملک میں اتفاق رائے ختم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کے خلاف احتجاج پر پریشانی کیوں ہے؟انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محترم سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ فرانس کی معافی تک تحریک تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جاری رہے گی۔اقوام متحدہ حرمت انبیا کا قانون بنائے۔ امریکا اگر صلیبی جنگ کا اعلان کر رہا ہے تو اسے صلاح الدین ایوبی کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ امت مسلمہ کا ایک ایک فرد صلاح الدین ایوبی بننے کے لیے تیارر ہے۔

گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر حکومت نے سیاسی جماعتوں کو یکجاہ نہیں کیا۔یہ کام جماعت اسلامی کرے گی۔میلن مارچ کو نائب امیر جماعت اسلامی جناب اسد اللہ بھٹو صاحب، جماعت اسلامی کراچی کے امیر جناب حافظ نعیم الرحمٰن، پاکستان تحریک انصاف کے آفتاب جہانگیر، مجلس شعائر اسلام کے اظہر ہمدانی، کراچی بار کے صدر نعیم قریشی، شیعہ علما کونسل کے علامہ ناصر عباس نقوی،جمعیت علما اسلام (ف) کے اسلم غوری، جمعیت علمائے پاکستان کے قاضی احمد نورانی،جمعیت علمائے اسلام(س) کے حافظ احمد علی، پاکستان پیپلز پارٹی کے نجمی عالم نے خطاب کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سلیم ضیا کے علاوہ دیگر سیاسیی اور دینی جماعتوں کے راہنمابھی موجود تھے۔ مارچ میں نظامت کے فرائض نائب امیر کراچی جناب اسامہ رضی صاحب نے ادا کئے۔ جماعت اسلامی کے مسلم پرویز، برجیس احمد مظفرحاشمی بھی شریک تھے۔سراج الحق نے کہا کہ یہ مارچ آخری نہیں ۔ ان شاء اللہ پاکستان کی ہر گلی اور کوچے میں یہ مارچ ہوں گے۔ ریلیاں نکالی جائیں گی۔ مغرب نے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک جنگ برپا کی ہوئی ہے۔وہ خود ہی اس پر نوٹس لے اور ہر دن اور ہر رات مسلمانوں کی غیرت کو للکار رہا ہے۔ شان، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضہ ہے کہ پاکستان میں نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نافظ کیا جائے۔گذشتہ ٦٥ سالوں میں پاکستان میں ایک دن کے لیے بھی نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نافظ نہیں ہوا۔

اگر پیرس میں شیطانی اور گستاخانہ عمل کے لیے لاکھوں افراد جمع ہو سکتے ہیں تو دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کروڑوں کیوں نہیں جمع ہو سکتے۔مسلمان تمام انبیا کی عزت واحترام کرتے ہیں۔کسی بھی نبی کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا اس گستاخی پر اسلامی جمعیت طلبہ نے کراچی میں احتجاج کیا۔ اور فرانس کے کونصل خانے جاکر پرامن یاداشت پیش کرنی چاہی تو پولیس نے ان پر فائرنگ کر دی اور یاداشت نہ پیش کرنے دی۔ حیرت ہے کہ لندن میں بیٹھے ہوئے لندن کے ایک شہری نے مطالبہ کیا کہ جماعت اسلامی پر پابندی لگائی جائے۔ جب ہم امریکا کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو ان کو کیوں پریشانی ہوتی ہے۔وہ چاہتے ہیں پاکستان میں قومی اتفاق رائے ختم ہو جائے۔تمام جماعتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ تحریک حرمت رسول ۖ پر متحد ہو جائیں گلی گلی کوچوں کوچوں میں اس تحریک کو آگے بڑھائیں ۔یہ تحریک اُس وقت جاری رہے گی۔ جب تک فرانس معافی نہ مانگ لے۔ جب تک اقوام متحدہ بھی انبیا کی شان میں گستاخی کے خلاف قانون نہ بنا لے۔

Mer Officer Aman

Mer Officer Aman

تحریر: میرافسر امان
mirafsaraman@gmail.com