جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج سے پانچ سال قبل یہ تاریخی جملہ بولا تھا، ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘۔ یہ یورپ میں مہاجرین کے بحران کا نقطہ عروج تھا اور تقریباﹰ ایک ملین غیر یورپی مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
ستمبر دو ہزار پندرہ میں چانسلر میرکل کے ساتھ لی گئی ایک شامی مہاجر کی یہ سیلفی دنیا بھر میں مشہور ہو گئی تھی ستمبر دو ہزار پندرہ میں چانسلر میرکل کے ساتھ لی گئی ایک شامی مہاجر کی یہ سیلفی دنیا بھر میں مشہور ہو گئی تھی
سوال یہ ہے کہ اس تاریخی واقعے کے پانچ سال بعد آج جرمنی کہاں کھڑا ہے اور اس نے اب تک اپنے ہاں ایسے کئی لاکھ تارکین وطن کی آمد سے پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کتنی کامیابی سے کیا ہے۔ میرکل طویل عرصے سے جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں لیکن ان کی زبان سے نکلا ہوا کوئی بھی دوسرا جملہ آج تک وہ تاریخی اہمیت اختیار نہیں کر سکا، جتنی یہ الفاظ: ”ہم یہ کر سکتے ہیں۔‘‘
قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) سے تعلق رکھنے والی انگیلا مریکل نے یہ الفاظ اس بارے میں سیاسی اور ذاتی اعتماد کے اظہار کے لیے ادا کیے تھے کہ یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی اپنے ہاں مہاجرین کے بحران کے دوران اپنے اپنے آبائی ممالک میں جنگوں اور مسلح تنازعات سے فرار ہو کر آنے والے پناہ کے متلاشی لاکھوں انسانوں کو پناہ دے سکتا ہے۔
یہ وہ بہت بڑا فریضہ تھا، جو جرمنی نے خود ہی اپنے سر لے لیا تھا۔ صرف چند ہفتوں کے اندر اندر 10 ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی میں داخل ہو گئے تھے۔ ان کی بہت بڑی اکثریت مشرقی یورپ میں اس راستے سے جرمنی پہنچی تھی، جسے ‘بلقان روٹ‘ کہا جاتا ہے۔
ان مہاجرین کی اکثریت کئی ہفتوں تک مشرقی یورپی ملک ہنگری میں پھنس کر بھی رہ گئی تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق جنگ زدہ ممالک شام اور عراق سے تھا، لیکن ان میں شامی اور عراقی باشندوں کے علاوہ کافی بڑی تعداد میں شمالی افریقی ریاستوں سے آنے والے شہری اور افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک کے باشندے بھی شامل تھے۔
جرمن چانسلر میرکل نے بہت بڑی سیاسی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی، حالانکہ یورپی یونین کے ڈبلن معاہدے میں طے کردہ قوانین کے مطابق یورپی یونین کے رکن وہ دیگر ممالک ان غیر ملکیوں کو اپنے ہاں پناہ دینے کے پابند تھے، جہاں یہ پناہ گزین موجود تھے یا جہاں سے ہو کر وہ جرمنی پہنچنا چاہتے تھے۔
تب میرکل حکومت کا سب سے زیادہ انسان دوست اقدام یہ تھا کہ برلن نے ان مہاجرین کو ان کے بحرانی حالات کی وجہ سے ملک میں داخلے کی اجازت پہلے دے دی اور کہا کہ یہ بعد میں دیکھ لیا جائے گا کہ ان کے پناہ کے دعوے قانوناﹰ کس حد تک جائز ہیں۔
انگیلا میرکل کے اسی تاریخی جملے کے نتیجے میں جرمنی میں 2015ء میں تقریباﹰ نصف ملین مہاجرین نے پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں اور اگلے برس 2016ء میں تو یہ تعداد ساڑھے سات لاکھ ہو گئی تھی۔ یوں صرف دو سال میں تقریباﹰ سوا ملین مہاجرین پناہ کے لیے جرمنی پہنچے تھے۔
جرمن چانسلر میرکل نے پانچ سال قبل ملکی سرحدوں کو مہاجرین کے لیے کھول دینے کا جو حکم دیا تھا، اس کی تب مخالفت بھی کی گئی تھی۔ اس دور کے جرمن وزیر داخلہ ٹوماس دے میزیئر نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ تب ‘جرمنی کا اپنی قومی سرحدوں پر کوئی کنٹرول نہیں رہا تھا‘۔ بعد میں وفاقی وزیر داخلہ کے طور پر دے میزیئر کے جانشین بننے والے قدامت پسند باویرین سیاست دان ہورسٹ زیہوفر نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ تب (سرحدیں کھول دینے کی وجہ سے) جرمنی پر ‘ناانصافی کا غلبہ‘ ہو گیا تھا۔
جرمنی میں کئی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے میرکل کے اگست 2015ء میں کیے گئے اس فیصلے کو تب بھی درست قرار دیا تھا اور آج بھی وہ یہی کہتے ہیں۔ ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کی ایک رہنما ایرینے میہالچ کہتی ہیں، ”تب چانسلر میرکل کا یہ فیصلہ درست تھا کہ ملکی سرحدوں کو بند نہ کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو دوسری صورت میں جرمنی اور یورپ کا دل سمجھے جانے والے خطے میں حالات اس حد تک انتشار کا شکار ہو جاتے کہ ایک بڑے تنازعے کا شدید خطرہ پیدا ہو جاتا۔‘‘
ملکی، یورپی اور بین الاقوامی سطح پر تب میرکل کے اس فیصلے کو بہت سراہا بھی گیا تھا۔ یہی وہی دور تھا جب انگیلا میرکل کی بیرونی دنیا میں عزت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اور وہ ترقی یافتہ دنیا کی پسندیدہ ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک بن گئی تھیں۔
انہی دنوں میں نیو یارک ٹائمز جیسے اخبارات اور الجزیرہ ٹیلی وژن جیسے نشریاتی اداروں نے میرکل کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرکل نے ‘غیر معمولی انسان دوستی‘ کا ثبوت دیا تھا۔
جرمنی میں تب رائے عامہ بھی منقسم تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کے بعد عوامیت پسند سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور یہ بھی کہا گیا کہ ان مہاجرین کی وجہ سے جرمن معاشرے میں جرائم بڑھ جائیں گے۔
یہ انہی بحرانی سیاسی حالات کا نتیجہ تھا کہ جرمنی میں ‘متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی نامی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت کو حاصل عوامی تائید میں اضافہ بھی ہونے لگا تھا۔
میرکل حکومت نے ایک ملین سے زائد غیر یورپی مہاجرین کی ملک میں آمد کے ساتھ ہی ان کے سماجی اور معاشی انضمام کی کوششیں بھی شروع کر دی تھیں۔ یہ کوششیں بہت کامیاب بھی رہیں مگر پوری طرح نہیں۔ لیکن اس وجہ سے ان کاوشوں کا ناکام بھی نہیں کہا جا سکتا۔
جرمنی میں روزگار سے متعلق تحقیق کے ادارے آئی اے بی کے اسی سال مکمل کیے گئے ایک تحقیقی جائزے کے مطابق 2013ء سے اب تک جتنے بھی مہاجرین یا تارکین وطن جرمنی آئے، ان میں سے نصف کے پاس باقاعدہ اجرتوں والی ملازمتین ہیں۔ جہاں تک ان مہاجرین کے سماجی انضمام کے بارے میں رائے عامہ کا تعلق ہے، تو آج بھی 60 فیصد جرمن باشندے یہ سوچتے ہیں کہ ان کا ملک ان مہاجرین کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتا ہے اور کر رہا ہے۔ وہ جرمن باشندے جو ایسا نہیں بلکہ اس کے برعکس سوچتے ہیں، ان کی شرح 40 فیصد بنتی ہے۔
جرمنی کے ادارہ برائے اقتصادی تحقیق کے جائزوں کے مطابق یہ ملک اپنے ان اہداف کے حصول کی طرف کامیابی سے گامزن ہے، جن کا اس نے اپنے لیے انتخاب پانچ سال قبل کیا تھا۔ اس عمل کو مزید مؤثر اور تیز بنانے کی ضرورت ہے اور اس میں جرمن ریاست اور یہاں پناہ لینے والے مہاجرین دونوں کا مشترکہ کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
اسی لیے گرین پارٹی کی ایرینے میہالچ کہتی ہیں، ”سماجی انضمام کوئی راتوں رات پورا ہو جانے والا عمل نہیں ہوتا، اور جرمنی میں یہ عمل آج بھی جاری ہے۔‘‘