وفاقی وزیر خزانہ نے اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود رواں مالی سال کا دوسرا منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جبکہ اسد عمر نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ گھروں کی تعمیر کے لیے 5 ارب روپے کی قرض حسنہ اسکیم کا اور زرعی قرضوں پر ٹیکس 39 سے کم کر کے 20 فیصد پر لا یا گیا ہے ،نا ن فائلر کیلئے ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کردیا گیاہے،ایس ایم ای سیکٹر کے بینک قرضوں پر آمدن کا ٹیکس20 فیصد کررہے ہیں،چھوٹے شادی ہالز پر ٹیکس 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کردیا گیا ہے ،نیوز پرنٹ پر امپورٹ ڈیوٹی ختم اورچھوٹے گھروں پر بینک قرض آمدنی کا ٹیکس 39 سے کم کرکے 20 فیصد کردیا گیا، نئی صنعتوں کو پانچ سال کیلئے ٹیکس چھوٹ ہوگی ، سولر پینل اور ونڈ ٹربائن پاکستان میں بنائے جائیں گے۔
سپیشل اکنامک زونز میں درآمدی مشینری کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس پانچ سا ل کیلئے ختم کیا جارہا ہے ، زرعی قرضوں ، صنعتی قرضوں اور گھروں کیلئے قرضہ جات پر ٹیکس آدھا کردیا گیا ہے، سیونگ ٹیکس ختم کردیا گیا ، در آمدی موبائل اور سیٹلائٹ پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا کیا گیا ہے،نان فائلرز زیادہ ٹیکس دے کر 1300 سی سی گاڑیاں خرید سکیں گے،1800 سی سی سے زائد گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی پر اضافہ کیا گیا ہے، 30 ڈالر سے کم قیمت کے موبائل پر سیلز ٹیکس 150 روپے ہوگا جب کہ 30 سے 100 ڈالر قیمت کے درآمدی موبائل پر 1470 روپے سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا، 350 سے 500 ڈالر قیمت کے درآمدی موبائل پر سیلز ٹیکس 6000 روپے سیلز ٹیکس ہوگا۔وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے دماغ میں ہے کہ کوئی نیا بجٹ پیش کیا جارہاہے۔یہ بجٹ نہیں صنعتی ترقی کیلیے معیشت کی اصلاحات پیش کر رہاہوں۔ایسانہ ہواگلی حکومت آکرآئی ایم ایف کوفون کرے ہم تباہی کے دہانے پرآگئے مددکریں۔ اگلے ہفتے میڈیم ٹرم اکنامک فریم ورک پیش کریں گے۔
سال ختم ہوا تو بجٹ خسارہ 6.6 فیصد تھا۔قرضہ عوام نے ادا کرنا ہوتا ہے۔یہ ملک کو ڈھائی سے 3 ہزار ارب روپے کا مقروض کرکے چلے گئے۔خسارہ ڈیڑھ سو ارب روپے تک پہنچادیاگیا۔ریلوے ، پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل میں رکارڈ خسارہ رہا۔یہ جھوٹ کا پلندہ عوام کو سناتے رہے ،کاش ان کا ضمیر جاگتا۔عوام سمجھتی ہے مشکل فیصلے ناگزیر تھے۔اپنی کارکردگی کا کہنا تھا کہ عوام سمجھتی ہے مشکل فیصلے ناگزیر تھے۔تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا ہے۔برآمدات بڑھی ہیں اور درآمدات کم ہوئی ہیں۔ہماری محصولات اور اخراجات میں توازن تک معیشت ٹھیک نہیں کرسکتے۔ہم عوام کو اپنا حکمران سمجھتے ہیں۔ہم خادم اعلیٰ بولتے نہیں ، سمجھتے ہیں۔
غریبوں کے لیے گھر بنانے ہیں۔چھوٹے سے درمیانی اداروں کیلیے قرضوں پر آمدن پر ٹیکس آدھا کررہے ہیں۔چھوٹے بزنس اداروں پر ٹیکس آدھا کیا جارہا ہے۔5 ارب کی قرض حسنہ کی اسکیم لارہے ہیں۔غریبوں کیلیے گھر بنانے ہیں ،گھربنانے پر مراعات دے رہے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے فنانس بجٹ کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مشترکہ احتجاج پر دونوں جماعتوں کو آئینہ دکھا دیا۔ ماضی میں شہباز شریف آصف علی زرداری کے خلاف مختلف قسم کے بیانات دے چکے ہیں۔ایک بار انہوں نے جلسے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ اگر میں نے زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹ کر اس کے پیٹ سے کرپشن کا پیسہ واپس نہ نکالا تو میرا نام بھی شہباز شریف نہیں۔ایک مرتبہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں زرداری کا پیٹ بھاڑ کر کرپشن کاپیسہ نکلواوں گا اور قوم کے قدموں میں لا کر رکھ دوں گا۔تاہم آج یہی شہباز شریف مشکل وقت پڑنے پر اسی زرداری کے ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو چکے ہیں۔اس پر حکومتی اراکین کی جانب سے شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔آج قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس قیادت کی کمی تھی وہ بھی پوری ہو چکی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی نیت سے اللہ واقف ہے اور اسی نیت کی بنیاد پر اللہ انکو کامیابی بھی دے گا۔انکا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو ایسی قیادت مل چکی ہے جس کے سرے محل نہیں ہیں ، جس کا پیسہ سوئس اکاونٹس میں نہیں پڑا۔جس کے لندن میں فلیٹس نہیں ہیں اور نہ ہی دبئی میں جائیدادیں ہیں۔انکا کہنا تھا کہ اس تقریر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جس خوبصورتی سے شہباز شریف نے آصف زرداری کو لاہور ،پشاور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹا، میں شہباز شریف کو داد دینا چاہوں گا۔ انہوں نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اپوزیشن نے حکومتیں کیں،دل کھول کر غلطیاں بھی کیں۔ان کے پاس 10سال حکومت رہی کیا معیشت چھوڑ کر گئے۔انکا کہنا تھا کہ اگلے ہفتے میڈیم ٹرم اکنامک فریم ورک پیش کریں گے۔سال ختم ہوا تو بجٹ خسارہ 6.6 فیصد تھا۔قرضہ عوام نے ادا کرنا ہوتا ہے۔یہ ملک کو ڈھائی سے 3 ہزار ارب روپے کا مقروض کرکے چلے گئے۔
خسارہ ڈیڑھ سو ارب روپے تک پہنچا دیا گیا۔ریلوے ، پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل میں رکارڈ خسارہ رہا۔یہ جھوٹ کا پلندہ عوام کو سناتے رہے ،کاش ان کا ضمیر جاگتا۔اس تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین شور شرابا کر رہے تھے اور تالیاں بجا رہے تھے تاکہ وزیر خزانہ اسد عمر ایوان میں فنانس بل پیش نہ کر سکیں۔اس موقع پر انہوں نے مسکرا کر حزب اختلاف کے بینچوں کی جانب دیکھا اور کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ یہ لوگ منافقت نہیں کر رہے بلکہ جو کر رہے رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں۔میں معیشت کی بربادی کی کہانی سنا رہا ہوں اور یہ تالیاں بجا کر اپنی حقیقت بتا رہے ہیں۔یہ سننا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان سمیت حکومتی اراکین قہقہے لگا کر ہنسنے لگے۔دوسری جانب اپوزیشن بینچوں پر کچھ دیر کے لیے خاموشی طاری ہوئی تاہم اس سب کے باوجود انہوں نے شور مچانا جاری رکھا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے منی بجٹ مکمل طورپر مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت نے منی بجٹ کے ذریعے نان فائلرز اور ٹیکس چوروں کو فری پاس دیا ہے،کاشتکاروں کے لئے بنک قرضوں پر انکم ٹیکس کی شرح کم کرنا پاگل پن ہے،منی بجٹ سے امیر امیر تر اور غریب مزید غریب تر ہو گا۔
مریم اور نگزیب نے کہاکہ منی بجٹ کے بعد ٹیکس چوری اور بلیک اکانومی کا حصہ کی قانونی اجازت دے دی گئی،یہ سب ایک ‘اًن ڈاکیومینٹڈ اکانومی’ میں کیاجارہا ہے۔ ٹیکس چوروں کی عید اور غریب پاکستانیوں کے لئے ماتم کا دن ہے۔گاڑیاں بنانے والی بڑی بڑی کمپنیوں کو عمران خان اور اسدعمر نے ریلیف دیا۔ ٹیکس چورپچاس لاکھ کا گھر، 1800 سی سی گاڑیاں خرید سکتے ہیں۔ منی بجٹ میں بچوں کو پلانے والے دودھ کی قیمت کم کرنے کا ”ریاست مدینہ” کے دعویداروں کو خیال نہ آیا وزیر خزانہ نے نہیں بتایا کہ جن مراعات کا اعلان کیا گیا ہے اس کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا ۔ ٹیکس دینے والے کے لئے قیمتیں بڑھ دی گئیں، فائلر کو کیا فائدہ دیاگیا عام استعمال اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کم کی جاتیں جو نہیں کی گئیں،گیس، بجلی، آٹا، روٹی، دوائی سمیت غریبوں کے استعمال میں آنے والی کسی چیز کی قیمت میں کمی نہیں کی گئی،پانچ مہینے میں ریکارڈ مہنگائی کا جو بم پاکستان کی عوام پر گرایا گیا، اس میں کمی نہیں کی گئی،صرف کمپنیوں، بڑی بڑے سرمایہ کاروں کا بجٹ ہے،منی بجٹ سے امیر امیر تر اور غریب مزید غریب تر ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) عوام اورغریب دشمن بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گی،حکومتی ڈھکوسلے اور ڈرامے کو بے نقاب کیاجائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں نے معاشی اصلاحی پیکیج کو منی بجٹ کا نام دیکر عوام دشمن پالیسی واضح کی ہے ٹیکس اصلاحی پیکیج میں ملک کی غریب عوام کو مکمل ریلیف دیا گیا ہے، عوام پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا گیا ، زرعی ٹیکس میں نمایاں کمی عوام کے لئے ترقی کی راہ بنے کی کیوں کہ صوبہ سندھ ایک زرعی صوبہ ہے پچھلی کئی دھائیوں سے سندھ کی زراعت کو تباہ کیا گیا تھا نواز اورزرداری نے زراعت کی شعبوں میں کرپشن کرنے کے لئے اسکیمیں متعارف کرائی گئی عام عوام کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا تھا۔پہلی بار قطر حکومت نے میں پاکستانی کی ایک لاکھ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع دیئے ہیں۔ بے روزگاری کے لئے قرضہ حسنہ کا اعلان بھی خوش آئیند ہے جس سے ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ وفاقی حکومت نے معیشت کو نئی زندگی دے کر ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے فرد کے دل جیت لئے ہیں۔اس سے اب ملک کی ترقی کا پہیہ تیزی سے رواں ہو گااور مخالفین کے منہ از خود بند ہو گئے ہیں۔
منی بجٹ میں حکومت نے غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری کیلئے راہیں ہموار کی ہیں، ٹیکسوں میں چھوٹ دے صنعتوں کی بحالی کیلئے عملی اقدامات کی جانب پیشرفت کی گئی ہے۔ نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، ملک میں معیشت کی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو گا، بند کاروبار پھر سے شروع ہوں گے۔ عام آدمی کو ریلیف دیا گیا ہے،کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، اس سے اچھا بجٹ سابقہ دور میں کسی حکومت نے نہیں دیا۔ملک کی صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ٹیکس ریفارمس کے ذریعے صنعت کو مزید منافعہ بخش بنایا جائے گا۔ انرجی منصوبوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے سے ملک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، نواز شریف نے بئنک ٹرانزیکشن پر ٹیکش عائد کیا تھا جس کا بھی خاتمہ کیا گیا ہے تمام اصلاحات عوام کے مفاد کی گئی ہیں پاکستان کی عوام پیش کردہ معاشی اصلاحی پیکیج کو خوش آئیند قرار دیتی ہیں، اپوزیشن کو عوامی مسئلوں پر سیاست نہیں کرنی چاہیے اگر عوام کے مفادات میں کام کیا جاتا ہے تو ان کو ساتھ دینا چاہیے۔