خادم اعلی نہیں وزیراعلی چاہیے

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

تحریر : روہیل اکبر
ملک میں کوئی بھی ادارہ اس وقت اپنا کام بہتر انداز میں نہیں کررہا بلکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ تمام اداروں کے سربراہ حکمرانوں کے ذاتی ملازم بن چکے ہیں اور وہ صرف انہی کی خدمت پر معمور ہیں رہی بات عوام کی وہ اذیت کی موت مرنے اور سسک سسک کر جینے کی حد تک آزاد ہے خوشحال زندگی صرف حکومت میں موجود افراد اور انکے حواریوں کے لیے ہی رہ گئی ہے کسی بھی سرکاری ادارے کی کارکردگی کو دیکھ لیں وہاں پر بیٹھے ہوئے جونیئر افسران نے اعلی عہدوں پر قبضہ جما رکھا ہے کیونکہ ایسے چھوٹے عہدوں کے چھوٹے افسران حکمرانوں کے ذاتی ملازم بن کر کام کرتے ہیں وہ عوام کو اپنے آپ سے اور حکمرانوں سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں اور رہی سہی کسر حکمرانوں نے بادشاہ بن کر پوری کر دی ہے۔

ملک کے کسی بھی شہر سے جب انکی شاہی سواری گزرتی ہے تو سڑکیں خالی کروالی جاتی ہیں مائیں رکشوں اور گاڑیوں میں بچے پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور مریض ایمبولینس میں دم توڑ جاتے ہیں اگر کوئی مریض خو ش قسمتی سے ہسپتال پہنچ بھی جائے تو وہ وہاں پر موجود ڈاکوؤں کے ہاتھوں مرجاتا ہے مشرف کی آمریت نما جمہوریت میں جب چوہدری پرویز الہی خادم اعلی نہیں بلکہ وزیراعلی پنجاب ہوا کرتے تھے تو اس وقت تمام بڑے ہسپتالوں میں الگ سے ایمرجنسی بنا کر ادویات مفت کردی گئی تھی سرکاری سکولوں میں مفت کتابوں سمیت تعلیم بھی اعلی تھی جبکہ حادثات کی صورت میں زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ریسکیو 1122 جیسی لاجواب سروس متعارف کروائی گئی۔

بے حسی کے اس دور میں جب زخمی سڑک پر پڑا تڑپ رہا ہوتا ہے اور اسکو کوئی شخص اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال نہیں پہنچا تا کہ کہیں خون کے چھینٹوں سے اسکی گاڑی کی سیٹیں خراب نہ ہو جائیں اور بعد میں رہی سہی کسر موٹی توند والے پوری کر دیں تو ایسے میں آمریت دور کا یہ تحفہ کسی غنیمت سے کم نہیں ہے جبکہ موجودہ جمہوریت نما آمریت میں ہر طرف قانون اور عوام کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے سفارش اور رشوت کا نظام اس حد تک مضبوط ہوچکا ہے کہ میرٹ اور ایمانداری کے لفظ صرف کتابوں میں پڑھنے کے لیے رہ گئے ہیں ہر ادارہ تباہ ہوچکا ہے اور وہاں پر بیٹھے ہوئے افسران اور اہلکاروں میں ضمیر نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہر فرد صرف پیسے کمانے کے لیے وقت گذاررہا ہے فائلیں اس وقت تک آگے نہیں پہنچتی جب تک انہیں پہیے نہ لگا دیے جائیں اسی تباہی کو دیکھ کر ہماری عدالتیں بھی کبھی کبھار اپنے ریمارکس دیتی رہتی ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جناب شجاعت علی خان نے عدالتی احکامات پر حکومتی عدم دلچسپی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہی شہریوں سے امتیازی سلوک برتا جارہا ہے اگر حکومت نے آئین اور عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں کرنا تو اداروں کو بند کر دیتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں نے آئین کولونڈی اور عدالتی فیصلوں کو مذاق بنا رکھا ہے آج عدلیہ فیصلے تو دے رہی ہے مگر حکومت کو ان فیصلوں کو کوئی پرواہ نہیں جمہوری دور میں عوام اپنے حکمران سے دور ہیں حکومت کے وزیر ،مشیر اور اراکین اسمبلی اپنے بادشاہوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے درباریوں کی خوش آمد میں مصروف ہیں اور درباری اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں جبکہ عوام کی پریشانیاں ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی کبھی وہ اپنے حق کے لیے مال روڈ پر پہنچ جاتے ہیں تو کبھی جی ٹی روڈ کو بلاک کردیتے ہیں،حکمران اپنے گھر میں خاموشی سے یہ سب تماشادیکھ رہے ہوتے ہیں۔

Young Doctors Protest

Young Doctors Protest

لاہور میں خادم اعلی کے دفتر کے باہر کلب چوک میں دھرنے پر بیٹھے ہوئے ڈاکٹروں کو پانچ روز ہوچکے ہیں مجال ہے کہ حکومت نے انکی سنی ہو عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آنے والوں نے عوام کے ہی سر کچلنا شروع کردیے ہے بجائے اسکے کہ ہر آدمی کے حقوق اسکی دہلیز پر اسے ملتے یہاں پر تو رات دن کے احتجاج پر بھی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی یہ لاہور ہے جسے صوبائی دارالحکومت بھی کہتے ہیں جہاں خادم اعلی اس کے بے اختیارے وزیر اور بغیر کسی کام کے تعینات مشیروں سمیت حکومتی نمک خواروں کی فوج موجود ہونے کے باوجود شہریوں کو اپنے چھوٹے سے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے بھی پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرہ کرنا پڑتا ہے مگر اسکے باوجود بھی انکے مسائل حل نہیں ہوتے جبکہ پنجاب کے دور دراز کے علاقوں میں جہاں زندگی کی سانسیں بھی گن گن کرلینا پڑتی ہے جہاں ایک یا دو روپے کے جھگڑے پر زندگی ختم کردی جاتی ہے جہاں جاگیردار اور سرمایہ دار خدا بنے بیٹھے ہیں جہاں کا کمی آج بھی زمیندار کے پاؤں میں بیٹھتا ہے جہاں گدھے اور انسان ایک ہی جگہ پانی پیتے ہیں جہاں ایک سوٹ اور جوتی عمر بھر ساتھ نبھاتی ہے جہاں انسان آج بھی دو وقت کی روٹ کے لیے جانور کی طرح کام کرتا ہے جہاں تعلیم شعور کے لیے نہیں بلکہ نوکری کے لیے حاصل کی جاتی ہے۔

جہاں کسی کے سر میں چوٹ لگ جائے تو اسے چار سو میل کا سفر طے کر کے جنرل ہسپتال لاہور لایا جاتا ہو اور پھر ہسپتال والے اسکی گائے بھینسیں تک بکوا دیں اور پھر وہ اپنے ساتھ ایک لاش لیکر واپس چلے جائیں اور حکمران اپنے آپ کو خادم اعلی کہہ کر تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں تو ایسی جمہوریت سے آمریت سو درجہ بہتر ہے جہاں ناظمین کے زریعے اقتدار اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کردیے جائیں غریب کے لیے علاج اور تعلیم مفت ہو اور آنے والے سیاستدانوں کی تیاری کے لیے جمہوریت کی اصل روح بلدیاتی نظام کی نرسری سے نئے سیاستدان پیدا کیے جارہے ہو تو وہ آمریت، بادشاہی جمہوریت سے بہت بہتر ہے اس لیے ہمیں خادم اعلی نہیں بلکہ وزیراعلی چاہیے جو ہر کسی کی پہنچ میں ہو۔

Rohail Akbar Logo

Rohail Akbar Logo

تحریر : روہیل اکبر

03004821200