تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کریم کی بارہا حمد وثناء اور ذات کبریا سرور انبیاء جناب محمد مصطفی ۖپر کروڑہا بار درودو سلام کے نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے آج اپنے علاقہ سے ہمیشہ کامیاب ہونے والے ایم پی اے سدا بہار سیاستدان وزیر مال میاں عطا محمد خان مانیکا صاحب کا ایک پر شکوہ بیان پڑھا جس میں موصوف نے بڑے ہی شائستہ انداز اپنے بے اختیار ہونے اور وزارت کی تبدیلی پر راضی نہ ہونا ظاہر کیا ہے ۔ایک تو میاں صاحب میرے ہی حلقہ کی مانیکا فیملی کے چشم و چراغ ہیں اور دوسرا بطور ووٹر بھی میرا واسطہ اسی حلقہ سے ہے اگر میں یوں کہوں کہ میرا بچپن سے اب تک کا سفر مانیکا فیملی کے ساتھ ہی گزرا ہے تو اس میں رتی بھر بھی مبالغہ آرائی نہ ہوگی ۔راقم نے مانیکا فیملی کے عروج و زوال دیکھے ہیں ایک وقت تھا جب آج کا ساہیوال ڈویژن ایک ضلع تھا یعنی اوکاڑہ اور پاکپتن ساہیوال کی تحصیلیں تھے تو اس پر بھی مانیکا فیملی نے راج کیا ہے۔
تقسیم ہند سے قبل ہی سے یہ فیملی اقتدار میں شریک رہی بعد از تقسیم کانگرس کو ووٹ دینے کے باوجود بھی اپنے ذاتی اثر ورسوخ سے پاکستان میں بھی اپنے علاقہ پر اپنا رعب دبدبہ اور حکومت قائم رکھی ہجرت کرکے آنے والے ایک راجپوت خاندان نے سیاسی مخالفت تو کی مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے تاہم پیپلز پارٹی سے مانیکا خاندان کو آئوٹ کرکے ذاتی مفاد تک حاصل کرنے میں یہ خاندان کامیاب ہوگیا سیاست کے میدان میں میاں صاحب ملک کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور اپنے آبائی حلقہ کے علاوہ ضلع اوکاڑہ سے بھی انتخاب جیت چکے ہیں میاں صاحب نے ہمیشہ اصول پر کاربند رہ کر سیاست کی ہے۔
مرد مومن ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ سے اب تک ایوان کے ممبر رہنے والے میاں عطا محمد خان نے مشرف کے آمرانہ دور میں ق لیگ سے فارورڈ بلاک بنا لیا اور زرداری دور میں زرداری کی ہر زورداری لالچ اور دھونس کو بالائے طاق رکھ کر میاں صاحبان کی حکومت کو وہ کندھا فراہم کیے رکھا جو ہر ذی شعور بندہ جانتا ہے اس وفاداری کے عوض میاں صاحب کو اپنا شیر کے نشان والا ٹکٹ دیا حالانکہ میاں صاحب اگر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے تب بھی انکا ذاتی ووٹ بینک اتنا مضبوط ہے کہ ایک ایم پی اے کا حلقہ سر کرنا انکے لیے کوئی بڑی بات نہ ہے الیکشن میں کامیابی کے بعد میاں صاحب کے لیے تعلیم عمر اور احسانات کے بدلے میں انکی من پسند وزارت کی توقع کی جارہی تھی کہ انہیں اوقاف کا وزیر بنادیا گیا میاں صاحب آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں اور صوفیاء کرام سے دلی محبت رکھتے ہیں انکی محبت کا یہ عالم ہے کہ اپنی تقریروں میں وہ پنجابی صوفی شعراء کا کلام ایسے پڑھتے ہیں جیسے انکو حفظ ہو خاص طور پر میاں محمد بخش کی سیف الملوک اور سید وارث شاہ کی شہرہ آفاق کتابیں تو میاں صاحب کی ہر تقریر کا حصہ ہیں۔
Nawaz Sharif
اسی محبت نے میاں صاحب کو یہ وزارت خوشدلی سے نبھانے میں معاونت کی ۔اب میاں صاحب کی وزارت تبدیل کرکے انہیں محکمہ مال کا قلمدان سونپا گیا ہے اندر کے حالات کو تو میاں صاحب اور میاں صاحبان ہی جانتے ہیں مگر میاں صاحب کا یہ بیان کہ میں مٹی کا وزیر ہوں میرے کہنے پر ایک تحصیلدار کا تبادلہ تو روکا نہیں گیا ،،،حیران کرگیا میاں صاحب نے تعلیم کی وزارت بھی رکھی اوقاف کی وزارت پر بھی فائض رہے اپنے ضلع پاکپتن کے پہلے چئیرمین ہونے کا اعزاز بھی انکے پاس ہے مگر قارئین یہ سطور پڑھ کر شائد آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں کہ دوسرے ایم پی ایز کی طرح میاں صاحب نے کبھی بھی حکومت سے اپنا ہر کام میں حصہ نہیں لیا میاں صاحب کے علاقہ میں حلقہ کے متعدد چکوک ابھی تک بھی رابطہ سڑکوں سے محروم ہیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں مگر میاں عطا محمد نے کبھی اپنے حلقہ کا دورہ ہی نہیں کیا صرف برادری کی شادی یا فوتگی کی محافل میں آنا جانا ہوتا ہے ۔میرے ناقص علم کے مطابق مال کی وزارت اوقاف کی وزارت سے مال میں بہتر ہے۔
مگر میاں صاحب جیسے درویش منش آدمی کو اس سے غرض نہیں وہ تو حضور داتا علی ہجویری کے عرس پر دودھ کی سبیل کا افتتاح کرکے اور حضور بابافرید مسعود گنج شکر کے عرس پر بہشتی دروازہ کی قفل کشائی کو سارے مال پر ترجیح دیتے ہیں مگر کچھ گذارشات ہیں اگر میاں صاحب مال کی وازارت قبول کرکے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے ضلع سے ایک اصطلاحی پروگرام شروع کریں جو دوسرے اضلاع کے ایم پی ایز کے لیے ایک مثال ہو اس پروگرام کے تحت صوبائی حکومت کی ہزاروں ایکڑ اراضی جو لینڈ مافیا کے قبضہ میں ہے جس میں متروکہ وقف املاک کی اراضی اوقاف کی اراضی اور دیگر ایسے اداروں کی اراضی شامل ہے جسے قبضہ گروپ نے اپنے باپ دادا کی وراثت سمجھ رکھا ہے۔
ریلوے کی اراضی بھی صوبائی سطح پر توجہ کی طالب ہے اگر میاں صاحب اس مٹی کی وزارت کو مٹی کی تقدیر بدلنے پر لگا دیں تو انکا یہ احسان آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی جبکہ ایک تحصیلدار یا پٹواری کا تبادلہ رکوانے یا کروانے پر صرف ایک فرد ہی راضی ہوگا اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ زیرک وزیر کے شایان شان ہی نہیں کہ وہ ایک تبادلہ پر اتنا ناراض ہو کہ سیاست یا وزارت ہی چھوڑ دے والسلام۔