وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی آمد اور ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات سیاسی حوالے سے کراچی کی عوام کے لئے قابل توجہ نہیں تھی کیونکہ اس بار پھر گیس بحران نے اہل کراچی کو پریشانی میں مبتلا کیا ، مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ ، صاف پانی کی عدم دستیابی اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے ملک بھر کی عوام کی طرح اہل کراچی بھی شدید پریشان و بے بس ہیں۔ موسم سرما میں عموماََ پانی کم استعمال ہونے کی وجہ سے بحرانی کیفیت پیدا نہیں ہوتی تھی لیکن اس بار موسم سرما میں بھی اہل کراچی پانی کے لئے ترستے دکھائی دیئے۔ اہل کراچی سیاسی جماعتوں کے درمیان لفظی جھڑپوں سے بُری طرح بیزار نظر آرہے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کو کراچی سے ملنے والا مینڈیٹ ایفا ء عہد کا منتظر ہے ۔ کراچی سے تحریک انصاف نے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈاکا تقرر کیا ہے لیکن کراچی کی بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر آبی وسائل کراچی کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔ ان کی توجہ کہاں ہے اس کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات کی کراچی آمد پر اس بیان سے ہوسکتا ہے کہ” انہوں نے سندھ میں تبدیلی کے لئے بنیاد رکھ دی ہے”۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا طرز بیان سخت اور متنازع سمجھا جاتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا حکومتی ترجمان کا تکلم و آداب اُس کی سیاسی جماعت و حکومت کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا تلخ لہجہ اور تیز طرار بیانات، اپوزیشن کو مشتعل کرنے میں کمال کا ہنر رکھتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ موصوف کئی سیاسی جماعتوں کا حصہ رہ چکے ہیں اور ان جماعتوں کے کسی کمزور حصوں سے بھی واقف ہوں ۔ اہل کراچی سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی سے تنگ ہیں ۔ ایک جانب کراچی میں چالیس پچاس برسوں سے قائم روزگار کے خاتمے اور ریلیف نہ ملنے سے لاکھوں متاثرین نفسیاتی ا لجھنوں کا شکار نظر آتے ہیں اور وہ اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ وفاق یا صوبائی حکومت ان کے معاشی مسائل کے حل کے لئے کوئی مربوط پیکچ دے گی ، لیکن اس کے بجائے یہ خبریں اب میڈیا میں آچکی ہیں ، کہ غیر قانونی تجاوزات و تعمیرات کے نام پر برسوں برس کا کاروبار ختم کرانے کے کرپٹ اہلکاروں نے بھاری رشوت کے عوض دوبارہ پتھارے لگوانے شروع کردیئے ہیں ۔ میئر کراچی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ اہم مارکیٹوں میں دوبارہ پتھارے لگائے جارہے ہیں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر قانونی عمل کو روکنے کے لئے پولیس کو اُن کی مدد کرنی چاہیے۔
برساتی نالوں پر قائم تجاوزات کے نام پر اہل کراچی کے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہوگیا لیکن ان بلدیاتی افسران اور اہلکاروں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جا رہی جن کی وجہ سے یہ تمام غیر قانونی تجاوزات و تعمیرات قائم ہوئیں ۔ سندھ کے وزیر ، بلدیات، میئر کراچی کے اختیارات مزید کم کرنے اور سادہ اکثریت سے ہٹانے کا بل تو منظور کرا رہے ہیں ، لیکن بلدیاتی نظام میں عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ اہل کراچی سندھ حکومت کی جانب بھی بڑی امیدیں لگائے ہوئے ہیں ، لیکن سندھ حکومت نے فنڈ کے حوالے سے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے کہ وفاق وعدے تو کرتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ جبکہ وفاق کا یہ کہنا ہے کہ کراچی سمیت سندھ کو دیئے جانے والے فنڈ کا استعمال درست نہیں ہوتا اور بقول وفاقی وزیر اطلاعات فنڈ منی لانڈرنگ سے بیرون ملک بھیج دیئے جاتے ہیں ، پانچ مہینے گذر جانے کے باوجود وفاقی و صوبائی حکومتیں سیاسی محاذ آرائیوں میں الجھی ہوئی ہے اور مسائل کے حل کے بجائے ترقیاتی کاموں پر ان کی توجہ کم دکھائی دیتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات اپنے چبھتے جملوں میں کمال مہارت رکھتے ہیں ، انہوں نے کراچی کے دورے میں سندھ میں تبدیلی کی پہلی اینٹ کہاں رکھی اس کا تو فی الحال دور دور تک نشان نظر نہیں آرہا ، لیکن ای سی ایل سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زدرداری کا نام نکالنے پراخلاقی شکست کا سامنا ہوا ہے۔ گو کہ انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اور چیئر مین پی پی پی کا نام جے آئی ٹی رپورٹ سے نہیں نکالا جائے گا اور ان کا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈالا جاسکتا ہے ، عدلیہ سے نظر ثانی کی اپیل بھی زیر غور ہے لیکن فی الوقت پی ٹی آئی کو سندھ میں اخلاقی شکست کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ کی حکم پر انہیں اپنی فہرست میں چار و ناچار نظر ثانی کرنی پڑی ۔ جے آئی ٹی رپورٹ کو لیکر جتنی دھماچوکڑی لگی ہوئی تھی اس کو لگام ملی ۔ اب نیب ، جے آئی ٹی کی مدد سے تحقیقات کو آگے بڑھائے گا۔
جب کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزرات نے نیب کے کردار پر دوبارہ انگلی اٹھائی کہ” حیران ہوں کہ نیب نے مراد علی شاہ ، آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو گرفتار نہیں کیا” تو ترجمان نیب نے وزیر باتدبیر کا خطاب دیتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا ، اور وزیر باتدبیر کیخلاف قانونی کاروائی کے لئے جائزہ لینے اور گرفتاریوں کے حوالے سے اپنا موقف بڑے سخت پیرایئے میں پیش کیا ، ایسے وفاقی وزیر اطلاعات کی دوسری بڑی اخلاقی شکست قرار دیاگیا۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری چاہے کتنی بار کراچی آئیں ، سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی جائیں ، لیکن انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کراچی سیاسی طور پر بڑ ا حساس شہر ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے وزیر اعظم پاکستان سے اپنے بند دفاتر و دیگر معاملات پر خصوصی ملاقات کی ہے ، پی ٹی آئی کی سپورٹ کرتے وقت بھی ایم کیو ایم ( پاکستان) نے اپنی شرائط میں دفاتر بندش کا معاملہ رکھا تھا ۔ ایم کیو ایم ( پاکستان) کے وزیر قانون دیگر تمام وزرا ء سے کئی زیادہ متحرک و فعال ہیں۔
اہل کراچی وزیر قانون فروغ نسیم کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن ایم کیو ایم پاکستان متوقع بلدیاتی انتخابات میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرز مین پارٹی کو مزید غیر فعال کرنے اور اپنے کارکنان و ذمے داران کی واپسی کے لئے مربوط منصوبہ بندی کے تحت اپنے تجربے کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان دفاتر کی قانونی ملکیت کو ثابت کردیتی ہیں تو انہیں کراچی کی سیاست میں دوبارہ سرگرم ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات سمیت تحریک انصاف کے تمام منتخب اراکین اسمبلی کو اس بات کا ادارک ہے کہ کراچی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی سیاسی جماعتوں سے جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان ابھی سیاسی طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ تمام تر الزامات کے باوجود کراچی کے مخصوص طبقے کی ہمدردیاں اب بھی ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ہیں ، اس لئے تحریک انصاف کو اگر کارکردگی کی بنیاد پر کراچی میں مستقل بنیادوں پر جگہ بنانی ہے تو انہیں بھرپور پرفارمنس دینا ہوگی۔ پی پی پی ، اہل کراچی کو صرف انتخابات کے دوران ہی متحرک نظر آتی ہے ۔ اہل کراچی ، پی پی پی کو اپنے شہر میں ترقیاتی کاموں کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں لیکن پی پی پی کا اہل کراچی کے لئے موثر کردار ادا نہ کرنا پی پی پی کے لئے شہر میں مینڈیٹ کے حصول کے درمیان حائل ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کراچی میں سیاسی جوڑ توڑ کی سیا ست کی بنیاد رکھنے کے بجائے اہل کراچی کے زخموں پر مرہم رکھیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اہل کراچی وزیر باتدبیر سے کراچی کے مسائل کا حل چاہتے ہیں کہ اس پر زیادہ توجہ دیں۔