اللہ جل شانہ کی لا محدود حمد وثناء اور وجہ تخلیق کائنات جناب محمد مصطفی کریم آقاۖ کی ذات مقدسہ مطہرہ پر درودسلام کے ان گنت نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم ایک لمبی غیر حاضری کے بعد اپنے قارئین کی خدمت میں ملکی تبدیلی کے حوالے سے چند سطور پیش کر رہا ہے غیور قارئین کی قیمتی آراء کا انتظار رہے گا وطن عزیز ملک پاکستان جسے ہمارے اسلاف نے بے شمار قربانیوں کے بدلے میں حاصل کیا اور اسکی اساس کلمہ طیبہ پر رکھی تاکہ وہ انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو سامراج کی مکاریوں سے الگ تھلگ رہ کر ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کر سکیں جو خالصتاّ ایک اسلامی معاشرہ ہو جس میں اللہ رب العالمین اور اسکے محبوب محمد کریمۖ کے رائج کردہ قوانین لاگو ہوں اور مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ایک جسم کی طرح بن کر رہ سکیں مگر بد قسمتی سے تحریک کے اندر ہی کچھ ایسے عناصر شامل ہو گئے جن کا مطمع نظر نہ تو اسلام تھا اور نہ ہی انسانیت بلکہ انہیں ایک الگ ریاست کا راجہ بن کر حکومت کرنے کا شوق تھا اس ٹولہ میں کچھ لوگ علماء کی شکل میں تھے کچھ جاگیر دار طبقہ شامل تھا۔
ہمارے اسلاف کے کندھوں پر سوار ہوکر یہ لوگ پاکستان جیسی ریاست الگ بنانے میں کامیاب ہو گئے اور پھر آج تک یہ مقتدر طبقہ میں ہی شامل رہے اس طبقہ نے کبھی مذہب کے نام پر کبھی جمہوریت کے نام پر بھولی عوام کو بے وقوف بنائے رکھا اور ملت کو گروہی تقسیم میں بانٹنے میں بہت رازداری سے کا میاب ہو گئے اور پھر ہم بھیڑ بکریوں کی طرح ان بھیڑیوں کا شکار بن گئے قوم کو دووقت کی روٹی یا دین پر ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے میں لگا کر یہ لوگ ارض پاکستان کو اپنی باپ داد اکی جاگیر بنا کر بیٹھ گئے ملکی وسائل پر اقرباء پروری اور اندھے کے ریوڑیاں بانٹنے کی مثال قائم کرکے ملک کو لوٹ لوٹ کر اپنے ذاتی خزانے بھرنے میں کامیاب ہوگئے ارض پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں عوام نے کبھی یہ اصرار کیا ہی نہیں کہ جمہوریت نافذ کی جائے بقول اشرافیہ ملک پر ڈکٹیٹر شپ نے ملک کا بیڑا غرق کردیا مگر حقیقت اسکے بر عکس ہے اس ملک کی ستر فی صد عوام تو شاید جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کی وضاحت بھی نہ جانتی ہو مگر اپنا نجات دہندہ بزرگ آج بھی اشرافیہ کے ڈکٹیٹر جنرل محمد ایوب خان کو ہی سمجھتی ہے وجہ یہ کہ اس نے عوام کے بنیادی حقوق کو پامال ہونے سے بچایا بنیادی ضروریات کی اشیاء کی قیمتوں تک نظر رکھی اور جاگیر دار طبقہ کے تسلط کو ختم کیا۔
آج طبقہ اشرافیہ اسے مارشلاء کا موجد کہتا ہے جب کہ اگر بھٹو زندہ ہے تو پھر یہ کریڈٹ بھی اسی جرنیل کو جاتا ہے جس نے بھٹو جیسے انقلابی لیڈر کی تربیت کی اور قوم کو زبان دینے والے اس انقلابی لیڈر کی باقیات نے اسکی عوامی پارٹی وہ حشر نشر کیا کہ مسٹر ٹین پرسینٹ سے شی میل جیسے بلاول تک آج اپنی گرفتاریوں کے ڈر سے دوبارہ عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش میں ہیں اسے عوام کی بدقسمتی کہیں یا بے شعوری کہ عوام کو آج تک اسلام سے آشنا تو بہت دور کی بات ہے جمہوری اقدار جاننے والا حکمران بھی نصیب نہ ہوا جو آیا اس نے دس لگا کر دس کروڑ بنائے اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے چلا گیا حالیہ عام انتخابات میں پچھلے طویل عرصہ سے انقلاب کی باتیں کرنے والے کرکٹر عمران خان کو عوام نے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر مسند اقتدار تک پہنچا دیا اور ان سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرلیں کہ بس پلک جھپکتے ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا مگر تیس سالوں سے ڈالا ہوا گند صاف کرنے میں خان صاحب کو کچھ وقت تو لگے گا یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے مگر تیس سالوں سے ملک لوٹنے والوں نے جو حشر خزانے کا کر دیا۔
اس کا براہ راست اثر غریب عوام پر ہی پڑتا ہے روزانہ کی بنیاد پر کمانے والا مزدور طبقہ ان پیچیدگیوں سے بے خبر ہے اسے تو اتنا علم ہے کہ وہ کل چار پانچ سو کی دیہاڑی لگا کر تھک ٹوٹ کر گھر لے گیا تو اسکے گھر کا راشن بھی پورا نہ ہو ا روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی کے ساتھ ساتھ اسکی مزدوری تو نہیں بڑھی وہ کیا جانے کہ پاکستان کے خزانے میں کیا کچھ پڑا ہے اور اسے اس بات سے بھی غرض نہیں کہ وزراء کو تبدیل کرکے حکومتی نظام کو ٹھیک کیا جا رہا ہے۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خود انحصاری کے راہ پر چلنے والی قوم ایک دن اپنی مضبوط معیشت کی مالک بن جاتی ہے مگر قوم کو اس روٹ ( راستے) پر ڈالنے سے پہلے اسے اتنا شعور دیا جائے اور اسے روٹی کے فکر سے آزاد کر دیا جائے تو حقیقی تبدیلی تبھی ممکن ہے مگر افسوس کہ رعایا کی صحت و خوراک اور تعلیم ریاست کی ذمہ داری کا اسلامی قانون ہی موجود نہیں جسے اغیار نے اپنایا اور آج ہم مسلمان ہو کر انکے مقروض ہو چکے ہیں ہم نہ تو وزراء کی تبدیلی کے منتظر ہیں اور نہ ہی اپنے علاقہ کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو وزارت کا قلمدان سونپنے کی اپیل کرتے ہیں ہم تو صرف اتنی عرض کرتے ہیں کہ کھیل کے میدان اور حکومتی معاملات میں ایک واضح فرق ہے کرکٹ میچ میں اگر بیٹنگ آرڈر تبدیل کرکے میچ جیتا جاسکتا ہے تو وزراء کو تبدیل کرکے عوام کو مہنگائی کی چکی سے بھی نکال لیں حقیقی تبدیلی تو تب ہی آئے گی جب دو وقت کی روٹی کے لیے کسی کو اپنی عصمت کسی کو اپنی عزت نہ بیچنی پڑے اور غربت کے مارے کوئی اپنے بچے برائے فروخت کا کتبہ اٹھائے نہ پھرتا ہو ورنہ وہ لوگ یہ کہتے ہوئے ذرہ برابر بھی نہ شرمائیں گے کہ ہمارے قائد نے میٹرو بس بنائی موٹر وے بنایا آشیانہ ہائوسنگ سکیم بنائی اور ساری قوم کو گعوی رکھنے کا ذکر کوئی بھی نہ کرے گا۔