لندن (جیوڈیسک) برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کی بریگزٹ سے متعلق سیاست پر ناامیدی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کی کابینہ کے گیارہ وزراء مبینہ طور پر انہیں استعفے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اخبار سنڈے ٹائمز نے تو ’بغاوت‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔
اس بارے میں برطانوی جریدے سنڈے ٹائمز کے ایڈیٹر ٹِم شپ مین نے ہفتہ تئیس مارچ کی رات اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’مے کی کابینہ کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف ایک بغاوت زیر عمل ہے۔‘‘ اس سلسلے میں اس برطانوی صحافی نے ملکی کابینہ کے گیارہ ایسے وزراء کے ساتھ بات چیت کا حوالہ دیا، جو اب یہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم ٹریزا مے کو حکومتی سربراہ کے عہدے سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔
مختلف خبر رساں اداروں نے ٹِم شپ مین کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا ہے کہ کابینہ کے ایک رکن نے، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، سنڈے ٹائمز کے اس مدیر کو بتایا، ’’(مے کا) اختتام قریب ہے۔ وہ دس روز بعد برطانیہ کی وزیر اعظم نہیں ہوں گی۔‘‘
لندن سے موصولہ دیگر رپورٹوں کے مطابق ٹِم شپ مین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ٹریزا مے کو نئے ہفتے کے آغاز پر پیر پچیس مارچ کو ہی اس مطالبے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ سے علیحدہ ہو جائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مے کی جگہ کسی ایسے سیاستدان کو عبوری سربراہ حکومت بنایا جائے گا، جو برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے عمل کو بخوبی مکمل کر سکے۔
چند خبر رساں اداروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ عبوری سربراہ حکومت کے عہدے کے لیے ٹریزا مے کا جانشین ممکنہ طور پر جن سیاستدانوں میں ایک ہو سکتا ہے، وہ مے کے نائب ڈیوڈ لیڈنگٹن، وزیر ماحولیات مائیکل گَوو اور وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ ہیں۔
ٹریزا مے نے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے لیے برسلز میں یورپی رہنماؤں کے ساتھ جو معاہدہ طے کیا تھا، اسے لندن کی پارلیمان وسط جنوری اور وسط مارچ میں دو مرتبہ مسترد کر چکی ہے۔ اب اسی بریگزٹ ڈیل پر ایک تیسری ممکنہ رائے شماری آئندہ ہفتے متوقع ہے جبکہ پروگرام کے مطابق برطانیہ کی طرف سے اپنے لیے طے کردہ بریگزٹ کی 29 مارچ کی ڈیڈ لائن پوری ہونے میں آج اتوار کو صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں۔
لندن سے موصولہ تازہ رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم ٹریزا مے کے نائب ڈیوڈ لیڈنگٹن نے آج اتوار کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزارت عظمیٰ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا، ’’میری رائے میں وزیر اعظم مے اپنی ذمے داریاں بہترین طور پر انجام دی رہی ہیں اور میں یہ نہیں سمجھتا کہ میں اپنے لیے ان کے عہدے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہوں۔‘‘
لندن میں دارالعوام نے حال ہی میں جب دوسری مرتبہ مے کی بریگزٹ ڈیل کو اکثریتی رائے سے مسترد کر دیا تھا، تو مے نے پارلیمان سے اپنے خطاب میں اسی ایوان کے منتخب ارکان کو قصور وار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’’اس بات کے اہل نہیں کہ برطانیہ کے یونین سے اخراج کے منصوبے پر عمل درآمد کے راستے سے متعلق آپس میں کسی اتفاق رائے تک پہنچ سکتے۔‘‘ ماہرین کے نزدیک حیران کن بات یہ بھی تھی کہ اس موقع پر مے نے اسی عمل کے دوران خود اپنے سیاسی کردار کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا۔
برطانوی میڈیا میں ٹریزا مے کے ممکنہ طور پر آئندہ دنوں میں سربراہ حکومت کے عہدے سے علیحدہ ہو جانے سے متعلق رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے متعدد حکومتی ذرائع نے اتوار چوبیس مارچ کو انہیں ’غلط‘ قرار دیا۔ وزیر خزانہ اور ٹریزا مے کے قریبی معتمد فیلپ ہیمنڈ نے بھی کہا کہ ان کی رائے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ مے کے دور حکومت کے خاتمے کی کسی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے۔