وزارت قانون میں 78 کروڑ روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف

Babar Awan

Babar Awan

اسلام آباد (جیوڈیسک) وزارت قانون میں 78 کروڑ روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈیٹر جنرل نے سابق وزیر قانون بابر اعوان کی جانب سے وکلاء میں کروڑوں روپے بانٹنے اور بلٹ پروف گاڑی کے استعمال کو خلاف قواعد قرار دیدیا۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزارت قانون نے 6 صوبائی بار کونسلز میں 4 کروڑ روپے جبکہ ایک سو 32 بار ایسوسی ایشنز کو سال دوہزار گیارہ سے دوہزار تیرہ کے دوران 73 کروڑ 64 لاکھ روپے سے زائد کی رقم فراہم کی۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 کے تحت وفاقی حکومت صوبائی بار کونسلز، ڈسٹرکٹ اور تحصیل بار ایسوسی ایشن کو گرانٹ فراہم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ آڈٹ کے دوران وزارت قانون سے کہا گیا تھا کہ اگر ایسا کرنا ہی ہو۔

تو پھر قانون میں مناسب ترمیم کرلی جائے جو تاحال نہیں کی گئی لہذا آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا موقف ہے کہ صوبائی بار کونسلز اور ڈسٹرکٹ یا تحصیل بار ایسوسی ایشنز کو 77 کروڑ 64 لاکھ روپے سے زائد کی رقم غیر قانونی طور پر تقسیم کی گئی۔یہ امر قابل ذکر ہے۔

کہ سابق وزیر قانون بابر اعوان کی جانب سے جب یہ بھاری گرانٹس وکلاء کی ایسوسی ایشنز میں تقسیم کی جارہی تھیں تو اس وقت چیف جسٹس کے عہدے پر افتخار محمد چوہدری براجمان تھے جن کیساتھ پیپلز پارٹی کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔

سابق وزیرقانون بابراعوان کو صدارتی سیکریٹریٹ کی جانب سے بلٹ پروف گاڑی فراہم کی گئی تھی۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون نے اس 5400 سی سی بلٹ پروف گاڑی کیلئے پٹرول اور اس کی مرمت کی مد میں اڑتیس لاکھ ستاون ہزار روپے کے اخراجات کیے جب کہ وفاقی وزیر کو وزارت قانون کی جانب سے 1800 سی سی کار بھی فراہم کی گئی تھی۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کاکہنا ہے کہ 1800 سی سی کار کے ہوتے ہوئے وزارت قانون کی جانب سے بلٹ پروف گاڑی پر کئے جانے والے اخراجات غیر قانونی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزارت قانون مروجہ قواعد کے برعکس انیس گاڑیاں کابینہ ڈویژن کو واپس کرنے کی بجائے استعمال کرتی رہی۔آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔

کہ اٹارنی جنرل آفس میں تیس ہزار روپے ماہانہ پر تین ریسرچ اسسٹنٹ رکھے گئے جن کے لیے یہ رقم بعد میں بڑھا کر پچاس ہزار روپے ماہانہ کردی گئی اور یوں انھیں کل بتیس لاکھ چھیانوے ہزار روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا کہنا ہے۔

کہ اٹارنی جنرل آفس میں ریسرچ اسسٹنٹ کی کوئی آسامی ہی نہیں تھی اور ان کو اخبارات میں اشتہار دیے بغیر ہی بھرتی کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون نے جوائنٹ سیکریٹری سہیل قدیر صدیقی کو ناجائز طور پر مانیٹائزیشن پالیسی کے تحت گاڑی دے دی جس کے وہ اہل نہیں تھے۔