چودہ اگست کو تمامتر رکاوٹیں ہٹا کر پر امن طریقے سے اسلام آباد پہنچنے والے آزادی و انقلاب مارچ کے شرکاء کی بالآخر وزیر اعظم ہائوس جاتے ہوئے پولیس کے ساتھ تصادم ہو ہی گیا،سولہ دن اسلام آباد میں دھرنے کے بعد اور حکومت سے مذاکرات کی ناکامی، خان اور قادری کی استعفوں کی ضد کے بعد شرکاء وزیر اعظم ہائوس کی طرف بڑھے تو پہلے پولیس نے راستہ دیا لیکن جب ایوان صدر کے گیٹ کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو پولیس نے اپنے اختیارات کو استعمال کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ربڑ کی گولیاں فائر کیں جس سے خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد بے ہوش ہوگئے۔ پولیس اور مظاہرین میں تصادم سے وفاقی دارالحکومت کا حساس ترین علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا۔
ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ مظاہرین حفاظتی جنگلا توڑ کر پارلیمنٹ ہاوس میں داخل ہو گئے تاہم فوج کے روکنے پر رک گئے۔ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قائدین عمران خان اور طاہرالقادری کی جانب سے کارکنان کو وزیراعظم ہاوس کے باہر منتقل ہونے کا حکم دیا گیا جہاں دونوں جماعتوں کو اپنے نئے لائحہ عمل کے مطابق دھرنا دینا تھا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے کارکنان کو مکمل پر امن رہنے اور کسی بھی صورت تشدد یا انتشار کا راستہ اختیار نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ انتظامیہ نے وزیراعظم ہائوس اور دیگر حساس عمارتوں کی طرف جانے والے راستوں پر کنٹینرز لگاکر سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کردی تھی جس نے مظاہرین کی پیش قدمی کے دوران پوزیشن لے لی۔ عوامی تحریک کے شرکاء کی قیادت ڈاکٹر طاہرا لقادری ، چوہدری شجاعت حسین، صاحبزادہ حامد رضا ، راجہ ناصر عباس اور تحریک انصاف کے شرکاکی قیادت عمران خان ، شاہ محمود قریشی ، شیخ رشید احمد اور دیگر رہنما کر رہے تھے۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان مزاحمت کے بعد عمران خان کے کنٹینر اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی گاڑی کو پیچھے ہی روک لیا گیا۔ پولیس کی شیلنگ کے باعث مظاہرین نے پسپائی اختیار کی اور پارلیمنٹ ہائوس کی طرف واپس چلے گئے۔ حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ سرکاری تنصیبات کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ حتمی حد عبور کرنے پر ریاست کی عملد اری قائم کی جائے گی جبکہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیر دل نے بھی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہرین کو ریڈ لائن میں داخل ہونے سے ہر صورت روکا جائے جس کے لیے شیلنگ سمیت ہر اقدام کیا جائے۔ اسلام آباد میں جھڑپوں اور پولیس شیلنگ کے بعد عمران خان اپنے کنٹینر اور طاہرالقادری اپنی بلٹ پروف گاڑی میں ہی رہے۔
ایک موقع پر عمران خان کنٹینر سے باہر آئے اور شدید شیلنگ کی وجہ سے منہ پر رومال رکھ کر کچھ لمحے کھڑے رہے اور پھر دوبارہ کنٹینر کے اندر چلے گئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ میرا گاڑی سے باہر نکلنے کا کیا فائدہ ہو گا۔ مجمعے کے ساتھ چل رہا ہوں۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ میری گاڑی کا گھیراؤ کرکے میری گاڑی اْٹھا لی جائے گی۔محکمہ داخلہ نے گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی ابتدائی رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کو پیش کر دی ہے۔
جس میں بتایا گیا ہے کہ مظاہرین نے بغیر اطلاع دیئے وزیراعظم ہائوس کی جانب مارچ شروع کیا ،بعدازاں مظاہرین نے ایوان صدر کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی جنھیں لائوڈ سپیکر پر اعلان کرکے بتایا گیا کہ یہ ریڈ زون کے اندر وہ ریڈ لائن ہے جس سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، مظاہرین کی جانب سے کٹراور دیگر اوزاروں کی مدد سے تاریں کاٹنے کی کوشش کی گئی جس پر پولیس نے پہلے ہوائی فائرنگ کی اور اس کے بعد جب مظاہرین نے سیکیورٹی اہلکاروں پر پتھرائو شروع کیا تو پھر آنسو گیس کے ذریعے انھیں منتشر کرنے کی کوشش کی گئی جسکی وجہ سے یہ سارا معاملہ شروع ہوا۔وزیراعظم نواز شریف کو بتایا گیا کہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس پر حملہ کرنیوالے 85 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔
مظاہرین سے آہنی راڈیں، ہتھوڑے، غلیلیں، ڈنڈے اور دیگر سامان بھی اپنے قبضے میں لیا گیا۔ رپورٹ میں 2 افراد کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی گئی اور بتایا گیا کہ 185 کے قریب زخمیوں کو پولی کلینک اور تقریبا 242 افراد کو اسلام آباد کے پمز ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انھیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ سارے آپریشن کی نگرانی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے کی جارہی ہے اور ان مظاہرین پر قابو پانے کیلئے بکتر بند گاڑیوں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے جبکہ پولیس، رینجرز، ایف سی اور پاک فوج کے دستے اپنی ڈیوٹیاں سر انجام دینے موقع ہر پر موجود ہیں۔تحریک انصاف اور عوام تحریک کے کارکنان سے تصادم کے بعد پولیس کے ‘گلوبٹ’ اپنی ناکامی اور مظالم چھپانے کے لیے میڈیا نمائندوں پر ٹوٹ پڑے اور تشدد کے باوجود کوریج کرنے پر میڈیانمائندوں کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔
Police Violence
کوریج سے بھی روکا گیا ۔مختلف چینلز کی ڈی ایس این جیز پر حملہ کیا گیا،انکی گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے ،پولیس کی طرف سے صحافیوں پر لاٹھی چارج کیا گیا۔پولیس اہل کاروں نے صحافتی ذمہ داریاں نبھانے والے پر امن میڈیا کے لوگوں کو گاڑیوں سے اور شناخت دیکھ دیکھ کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔پولیس نے سماء کے کیمرا مین اور رپورٹر کو بھی اپنے تشدد سے باز نہ رکھا اور آزادنہ لاتھوں ہاتھوں اور گھونسوں کا استعمال کیا گیا، مشتعل پولیس اہل کاروں نے سماء کے کیمرے بھی توڑ ڈالے اور ڈی ایس این جی وین کو نشانہ بنایا۔ سماء کے کیمرہ مین کو شدید زخمی حالت میں پمز منتقل کر دیا گیا ہے۔
پولیس کی جانب سے ڈان، دنیا، آج اور نیوز ون کی ٹیم پر بھی تشدد کیا گیا، پولیس کے بدترین تشد کے بعد صحافی تنظیموں نے وزیراعظم سے آئی جی کو فوری ہٹانے کا مطالبہ کردیا ہے۔نیوز چینلز پر تشدد کے بعد آر آئی یو جے اور نیشنل پریس کلب نے صحافیوں پر تشدد کی شدید مذمت کی ہے، تشدد کے خلاف صحافتی تنظیموں نے آج آئی جی آفس کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ آل پاکستان سائبر نیوز سوسائٹی کے میڈیا کو آرڈینیٹر ممتا زحیدر،فوٹو گرافر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری محمد رمضان کی جانب سے صحافیوں پر پولیس تشدد کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پولیس کے بیہمانہ تشدد کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اور مظاہرے کریں گے۔ پمز اسپتال کی ترجمان ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ پمزمیں 229 اور پولی کلینک میں 251۔ مریض لائے گئے ہیں۔
جب کہ گلفام کو دھرنے کے دوران پیٹ میں ربڑ کی گولی لگی تھی، جس کے بعد وہ اسپتال لایا گیا مگر جانبر نہ ہوسکا۔معمولی زخمیوں کو طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے، پمز میں زخمی سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد 45ہوگئی ہے، جب کہ 38عورتیں اور 5بچے بھی پمز اسپتال لائے گئے، ترجمان پمز کے مطابق رفیق اللہ اور آصف نامی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔دیگر زخمیوں سے متعلق ترجمان کا کہنا تھا کہ مختلف چینلز کے 5 کیمرا مین بھی زخمیوں میں شامل ہیں، زخمیوں میں سماء ٹی وی کے 2 کیمرا مین شامل ہیں، سی ڈی اے اسپتال میں بھی 30 سے زائد زخمی لائے گئے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی ف اور دیگر جماعتوں نے وزیراعظم ہائوس کے باہر پاکستان تحریک انصاف، پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس میں تصادم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا۔ ان جماعتوں نے تاہم موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ان دونوں جماعتوں کو قرار دیا ہے۔ ان رہنمائوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسائل کا حل مذاکرات میں ہی پوشیدہ ہے۔