تحریر : ساحل منیر پاکستان کی تاریخ میں اقلیتوں کے اِنسانی حقوق کے حوالے سے عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی کا جو بیانیہ مرتب ہوا اس کے تانے بانے بِلاشبہ ضیاء آمریت کے دور سے جا مِلتے ہیں۔ تاہم اِس امر سے بھی ہر گز انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قائدِ اعظم کی رحلت کے فوری بعد مذہبی اشرافیہ نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے اور پاکستان کی محبِ وطن و امن پسند اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری قرار دینے کا عمل نہایت سرعت سے شروع ہو گیا۔ مابعد پاکستان کی ایک سب سے لبرل اور روشن خیال کہلانے والی سیاسی جماعت کے سربراہ نے بھی اپنا اقتدار بچانے کی ناکام کوشش میں مذہبی عناصر کی بھرپور حوصلہ افزائی کی اور اقلیتوں کو احساسِ عدم تحفظ سے دوچار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
علاوہ ازیں ضیاء آمریت نے شرعی قوانین کے نفاذ کی آڑ میںاقلیتوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا ا س نے انکے سیاسی،سماجی ،آئینی اور معاشی و معاشرتی وجود کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔اس وقت سے لے کر اب تک مذہبی اقلیتوں پر امتیازی قوانین کے تحت لاتعدادجھوٹے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔درجنوں بے بس و لاچار افراد اپنے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیںجھیل رہے ہیںاور ذاتی و کاروباری رنجشوںکی بنا پر انہیں مذہبی انتہا پسندی وجنونیت کا نشانہ بنایا گیاہے۔ماضی میں اقلیتوں کے خلاف جلائو گھیرائو کے مذموم واقعات کِسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
گوجرہ اور قصور میں مسیحی کمیونٹی کے افرادکو زندہ جلانے کے سانحات پوری دنیا میں ملک کی بدنامی و رسوائی کا سبب قرار پائے۔پاکستان کی مذہبی اقلیتیں ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بھی عدمِ تحفظ کے احساس سے دوچار ہیںاور انہیںدہشت گردی وانتہا پسندی کے شدید خطرات لاحق ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اِس طبقے کے سینکڑوں افراداپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی تلاش میں بیرونِ ملک منتقل ہو چکے ہیں۔حالانکہ یہ رحجان کِسی طور بھی حوصل افزاء نہیں ہے بلکہ اصلاحِ احوال کا متقاضی ہے اورحکومتِ وقت،ریاستی اداروں و سوِل سوسائٹی کو بانیء پاکستان کے سنہری افکار کی روشنی میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کو متعین کرنا ہوگا۔واضح رہے کہ قائدِ اعظم نے تحریکِ پاکستان میں اقلیتی کمیونٹیزکا اعتماد حاصل کرنے کے لئے اپریل 1941ء میں مدراس کے مقام پر مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ”اقلیتیں جہاں بھی ہوں انکے تحفظ کا انتظام کیا جائے گا۔میں نے ہمیشہ یقین کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا یقین غلط نہیں ہے۔
Minorities Protest
کوئی حکومت اور کوئی مملکت اپنی اقلیتوں کو اعتماد اور تحفظ کا احساس دلائے بغیر کامیابی کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی۔کوئی حکومت ناانصافی اور جانبداری کی بنیادوں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔اقلیت کے ساتھ ظلم و تشدداس کی بقا کا ضامن نہیں ہو سکتا۔اقلیتوں میں انصاف و آزادی اور امن و مساوات کا احساس پیدا کرنا ہر انتخابی طرزِ حکومت کی بہترین آزمائش ہے۔
اِس خصوصیت میں ہم دنیا کے کِسی مہذب ملک سے پیچھے نہیں رہ سکتے”۔ برِ صغیر پاک و ہند کی اقلیتوں بالخصوص مسیحیوں نے قائدِ اعظم کی آواز پر لببیک کہتے ہوئے نہ صرف تحریکِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری،پاک بھارت جنگوں اورتعلیم و صحت سمیت مختلف شعبہ ہائے زِندگی میں ا ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دیں لیکن نصاب و تاریخ کی کتب میں کہیں بھی انکا ذِکر نہیں ملتا اور پاکستان کے عام شہری کو حصول ِ آزادی کی تاریخ میں اقلیتوں کے کردار سے قطعی بے خبر رکھا گیا ۔جس کی وجہ سے اقلیتوں کے خلاف مختلف قسم کے تعصبات و امتیازات پروان چڑھے اور انکے قانونی و آئینی حقوق بری طرح پامال ہوئے۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں محروم و پسماندہ طبقات کو قومی دھارے میں لانے اور اور ان کے مساویانہ حقوق و مراتب کو نافذ العمل کرناہی معراجِ انسانیت اوربنیاد پرستی و انتہا پسندی کے خاتمے کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔لہذا پاکستانی اقلیتوں کے انسانی حقوق کے تناظر میں اربابِ بست و کشاد کا فرض ہے کہ مذہب و عقائد کی بنیاد پر استحصالی رحجانات کی حوصلہ شکنی کریںاور اقلیتوں کے خلاف پائے جانے والے تمام ایسے امتیازی قوانین پر نظر ثانی کریںجو معاشرے میں ان کی مساویانہ حیثیت و شناخت کو زِک پہنچاتے ہوئے ظلم و تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔