حقوق انسانی کے تحفظ کی پاسداری کا جو نظام اسلام نے پیش کیا ،کسی اور مذہب میں اس کا تصور تک موجود نہیں ہے۔انسان تو انسان اسلام نے تو نباتات و جمادات، حیوانات وچرند پرند تک کے حقوق کا تحفظ فرمایا ہے۔
اسلامی ریاست میں بسنے والے غیر مسلم جنہیں اصطلاحاً” ذمی”کہاجاتا ہے کے لیے بھی واضح تعلیمات دی گئی ہیں۔ اسلام نے حدود میں رہتے ہوئے انہیں ہر قسم کی معاشی، معاشرتی، اخلاقی او رمذہبی آزادی فراہم کی ہے مگر غلط پالیسیوں کے باعث بعض اوقات معمولی معاملات بھی غلط رخ اختیار کرجاتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے اس اسلامی ریاست کے دارالخلافہ میں سرکاری سطح پر مندر کی تعمیر کا اعلان کیا، معاملہ اس وقت مزید شدت اختیار کرگیاجب اسی شہر کی حدودمیں 23 سال قبل کروڑوں کی لاگت سے تعمیر ہونے والی مسجد کو شہید کرنے کا آغاز ہوا، مذہبی جماعتوں کے بروقت احتجاج سے مزید انہدام تو نہ ہوا مگر مسمارشدہ حصے کو خود اپنے خرچ پر تعمیر کی اجازت مل گئی۔ دوسری جانب حکومت پر عزم ہے کہ مندر تعمیر ہوگا صرف مشاورت اس بات پرہورہی ہے کہ کیا اسلامی ریاست سرکاری خرچ پر غیر مسلموں کی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتی ہے یا نہیں؟
اسلامی نظریاتی کونسل میں پیش کئے گئے اس سوال کا جواب نجانے کب اور کیا ملتا ہے مگر ہماری درخواست فقط یہ ہے کہ اہل اسلام سے یہ بد سلوکی اور غیر مسلموں سے اس قدر نرم گوشہ خاکم بدہن یہ ماجرا کیا ہے؟ مندر کی تعمیر وہ بھی ایسی جگہ پر جہاں دور دور تک ہندو آبادی کا تصور بھی نہیں ہے۔ بات صرف ایک مندر کی نہیں ہے ریاست مدینہ کے دعویداروں کی پالیسیاں کچھ مشکوک دکھائی دیتی ہیں۔
حلف برداری کے وقت لفظ” خاتم النبیین” کا غلط تلفظ ادا کرنا، کرتار پور راہداری کے ذریعے سکھوں اور قادیانیوں کو نوازنا اور پھر وزیر اعظم صاحب کی حالیہ گفتگو میں بار بار توجہ دلانے کے باوجود لفظ” خاتم النبیین” ادا نہ کرنا، دوسری طرف مساجد کی مسماری اورنئی مساجد کی تعمیر کے لیے این او سی کی کڑی شرائط، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔وطن عزیز میں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے کہ مذہب کے نام پر اقتدار حاصل کرکے پھر اسی مذہب سے کھلواڑ کیا گیا۔ریاست مدینہ کے قیام کا نام لے کر غیر مسلموں کے مذہبی مقامات کو حرمین شریفین کے ساتھ تشبیہ دی گئی،قومی خزانے سے ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر اور آنے والے یاتریوں کے لیے پاسپورٹ تک کی قید ختم کردی گئی ۔
ہم نے بہت سی امیدیں اس حکومت سے وابستہ کیں مگر جب سے تبدیلی آئی ہے آئے دن کوئی نہ کوئی بحران سر اٹھا رہا ہے، چینی مہنگی ہوئی، ذمہ دار پکڑے بھی گئے مگر قیمتوں میں کمی نہ ہوسکی،بجلی خاموشی سے اتنی مہنگی کی جاچکی ہیکہ گھریلو صارف کو بھی فی یونٹ پچا س روپے میں پڑتا ہے اور ایک متوسط فیملی کا بل بھی پندرہ بیس ہزار سے کم نہیں آتا، اس پر مزیدظلم یہ کہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بھی جاری ہے۔ جس شاہرا ہ پر جائیں تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیںجن کی مرمت کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی ،اپنی تنخواہوں اور مراعات میں مند پسند اضافے اور دوسری طرف پینشن ختم کئے جانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں ،گندم کی کٹائی کے سیزن میں ہی آٹے کا بحران پیدا ہوچکا ہے، عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کے برعکس تیل کی قیمتیں پہنچ سے باہر ہیں،پہلی مرتبہ دیکھا کہ ایک دم 26 روپے فی لٹر اضافہ کردیا گیا، اس سب کچھ سے بڑھ کر انسانی جان بچانے والی ادویات 10فیصد مزید مہنگی کردی گئیں، کس کس بات کا رونا روئیںاس سب بے ترتیبی اور لاقانونیت کے باعث یہی سوال اٹھتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز کہیںہے بھی؟ کیا حکومتیں ایسی بھی ہوتی ہیں؟سیاسی قائدین کوحزب اختلاف میں بیٹھ کر نظرا نے والے مسائل اقتدار حاصل ہوتے نجانے کیوں دکھائی نہیں دیتے۔یادرکھیں! اگر آپ نے بھی پہلوں کی ڈگر پر چلنا نہ چھوڑا تو قوم آپ کو ان سے بھی زیادہ برے القاب سے یاد کرے گی اور تم بھی اسی طرح تاریخ کا سیاہ باب بن جائو گے۔خدارا ! کچھ تو ان سے ہٹ کر کریں،ابھی وقت ہے پریشان عوام کے حالات پر رحم کریں اور دعائیں لیں۔
بہر حال اگر کوئی اچھا اقدام ہو تو اس کی تحسین بھی ضروری ہے۔کرونا وباء بحرانوں اور مہنگائی کے ہاتھوں بے حال عوام کے لیے موجودہ حکومت کی طرف سے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا ایک بار پھر آغاز اچھی خبر ہے، اس ڈیم کی تعمیر کے لیے برسوں سے افتتاح کی تختیاں بدلتی رہیں مگر منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا۔ تفصیلات کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر سے 16ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ 30ہزارایکڑ اراضی سیراب ہوگی اور 4500میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ پاکستان کی مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا۔
73سالوں کے دوران صرف تین بڑے ڈیموں کی تعمیر افسوس ناک کہانی ہے جس سے پاکستان کے حکمرانوں کی نا اہلی بدنیتی اور مجرمانہ غفلت کھل کر سامنے آتی ہے۔ افسوس پاکستان اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کے باوجود دنیا کے ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اگر ہمارے سابقہ حکمران پانی سے بجلی بنانے کی بجائے تیل سے بجلی بنانے کے فیصلے نہ کرتے تو آج عوام کو سستی اور وافر بجلی دستیاب ہوتی۔
اللہ کرے اب پھر یہ سیاست اور کرپشن کی نذرنہ ہوجائے، منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے ، براہ راست عوام مستفید ہوںاوریہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو۔