کراچی : جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنمااور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہاہے کہ حدیث مبارکہ کے مطابق امت محمدی ۖ کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں، بنی اسرائیل کے انبیاء پر جب مشکل وقت آیا تو انہوں نے دنیاوی مفادات اور مقاصد کو دین پر ترجیح نہیں دی بلکہ اللہ کے برگزیدہ بندے ہوتے ہوئے بھی اپنی جان کی قربانی پیش کی۔
جب ان کے جسموں کو آرے سے چیرا گیا تو انہوں نے صبر کیا اور ہر امتحان سے کامیاب گزر گئے، اسی طرح چودہ سو سال سے اکابرین نے کبھی بھی حق و سچ پر سمجھوتہ نہیں کیا، امام احمد بن حنبل نے آخری عمر جیل میں کوڑے کھانا پسند کیا مگر اس گوارہ نہیں کیا کہ دین محمدی ۖ پر کوئی آنچ آئے ، امام ربانی مجدد الف ثانی نے اکبر بادشاہ کے سامنے کلمہ الحق بلند کیا۔
مجاہد تحریک آذادی علامہ فضل حق خیر آبادی نے انگریزوں سے جہاد کیا،مجاہد ملت مولانا نیازی نے پھانسی کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا، مولانا ابوالحسنات قادری موت کے خوف سے گھبرائے نہیں،مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے نظام مصطفیۖ کے مشن میں قادیانی اور جرنیلی دبائو کی پرواہ نہیں کی، بدترینرکاوٹوں، دھمکیوں، جان لیوا حملوں کے باوجود قادیانی کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوایا، جمہوریت کی بقاء کے لئے سب سے بڑھ کر خدمات پیش کیں،جنہوں نے سیاست کو حرام کہا انہوں نے دین میں بگاڑ پیدا کیا اور زانیوں اور شرابیوں کے لئے ماحول فراہم کیا کہ وہ ایوان میں پہنچ جائیں اور اسلام مخالف قوانین کو آئین اور ریاست کا حصہ بنائیں۔
سیاست دین کی افضل ترین عبادت ہے، جس نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اس نے حضور علیہ السلام کی عظیم ترین سنت کو چھوڑ دیا، آج نیک اور پارسا لوگ عوامی خدمت اور سیاست سے دور ہوئے ہیں تو ہی سیکولر اور بنیاد پرست لبرل عناصر ایوان پر قابض ہوئے ہیں،اسلام مخالف قوتوں کا واحد حل علماء کا پارلیمانی و عوامی سیاست کا اختیار کرنا ہے۔
جمعیت علماء پاکستان کا پلیٹ فارم ملک کا واحد پلیٹ فارم ہے جو نظام مصطفیۖ کے نفاذ اور مقام مصطفیۖ کے تحفظ کے لئے جدوجہد کر رہا ہے، مشائخ و اکابرین کے وفد سے ملاقات میں جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنمااور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ اقلیتی بل کے حوالے سے علماء و مشائخ کا کرداد قابل تحسین تھا۔
امید کرتے ہیں کہ نظام مصطفیۖ کے لئے مشائخ خانقاہوں سے رسم شبیری ادا کرنے کے لئے نکلیں گے،اب پھر سے ضرورت ہے کہ خانقاہوں اور درگاہوں سے صدا آئے کہ نظام مصطفیۖ کا نفاذ یا کفن، ملک کی تمام سیکولر و بنیاد پرست جماعتیں ملک کرپشن، دہشت گردی اور قرضوں کو ختم کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں، علماء مشائخ و اکابرین اگر پارلیمنٹ میں منتخب ہو کر آجائیں تو شریعت محمدی کا نفاذ ہو جائے گا،جب جمعیت علماء پاکستان کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ میں تھے تو اس وقت آئین پاکستان میں 220 اسلامی دفعات شامل کروائی گئیں، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا گیا۔
ناموس رسالتۖ کے قانون کو آئین کا حصہ بنایا گیا، اسلام مخالف قوانین ختم کروائے گئے، لفظ مسلمان کی متفقہ تعریف کو آئین میں شامل کرنا بھی جمعیت علماء پاکستان کا اعزاز ہے، 1970کی دہائی میں جب مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی اور ذوالفقار علی بھٹو پارلیمنٹ میں تھے اس وقت پاکستان اسلامی دنیا کا سپر پاور تھا، 1980کی دہائی میں جنرل ضیاء نے لسانیت، عصبیت، فرقہ واریت، دہشت گردی، کلاشنکوف اور ہیروئن کا کلچر متعارف کروایا۔
پوری قوم کو پٹھان، پنجابی، مہاجر، سندھی اور بلوچی میں تقسیم کردیا، جمعیت علماء پاکستان واحد جماعت ہے جو پوری قوم کو متحد کرنے کا ہنر جانتی ہے، شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ فاروق ستار 12 مئی کے مرکزی مجرم ہے، گواہ شاہد ہے تو وہ آذاد کیسے گھوم رہے ہیں، فوجی عدالتیں پر تب اعتماد کرینگے جب 12 مئی، سانحہ نشتر پارک اور بلدیہ فیکٹری کے معصوم شہداء کا انصاف ہوگا۔
قریب دس سال ہوچکے ہیں،قوم انصاف کی منتظر ہے،آج تک ایک بھی مجرم کو سزا نہیں دہ گئی بلکہ جو گرفتار تھے سب کو رہائی دے دی گئی، عدالتیں چپ ہیں اور قوم کے نگہبان آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں،قاتل آذاد گھوم رہے ہیں۔