تحریر : ساجد حبیب میمن ُُُُُُُُُپاکستان میں موجود آئین میں غیر مسلم شہریوں کے مذہبی اور معاشرتی حقوق تو موجو ہیں مگر اس پر عملد رآمد کا معاملہ ہم آئین سے ہٹ کر اور اس کے برعکس ہی دیکھتے ہیں ۔قائداعظم بھی قیام پاکستان کے بعد غیر مسلم شہریوں کے لیے برابری کی شہریت کے قائل تھے بانی پاکستان کی اسی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے شاید آئین کو بناتے ہوئے غیر مسلموں کے مذہب ان کے کلچراور تہذیب و تمدن کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا کہا گیا۔امسال صوبہ سندھ کی حکومت نے ہندوبرادری کے مذہبی تہوار ہولی کے موقع پر چھٹی کا اعلان کرکے ایک اور مثبت روایت کو جنم دیا ہے جس سے ناصرف پاکستان بلکہ ہندوستان کی سو کروڑ کی عوام نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔
جس کا اثر یقیناً ہندوستان میں موجود 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں پر ضرور پڑنا چاہیئے اور ممکن ہے کہ ہندوستان کی حکومت جو آئے روز وہاں پر موجود انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر مظالم کو روکنے پر میں ناکام نظر آتی ہے مسلمانوں کے حقوق کے لیے کوئی مثبت پالیسی کا اعلان کرکے مسلمانوں کو مکمل تحفظ فراہم کراسکے مگر اس بات کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے نہ تو بھارت کی جانب سے سندھ میں ہندوبرادری کی ہولی کے موقع پر چھٹی کے اعلان کا مثبت جواب دیا گیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر کسی قسم کا بیان جاری کیا گیا ہے ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اس ملک میں موجود کسی نہ کسی لحاظ سے بھارت کے مقابلے میں اقلیتی برادری کو حقوق دینے میں اچھی شہرت رکھتا ہے مگر کچھ نہ کچھ عدم تحفظ پاکستان میں بھی موجود ہے ۔گزشتہ دو ماہ قبل ہندوبرادری کے لوگ ٹنڈومحمد خان میں زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہوگئے۔
Wines
یعنی 65 کے قریب ہندو لوگ اپنی جانوں سے چلے گئے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیئے کہ ان لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا یا ان کو گلہ دبا کر مارا گیا ہے یہ درست ہے کہ پاکستان میں جگہ جگہ کھلے قحبہ خانے شراب بیچنے والی دکانیں موجود ہیں جنھیں سرکار نے باقائدہ سرٹیفیکٹ جاری کیئے ہوئے یہ دکانیں حکومت میں موجود محکمہ ایکسائز کی ماتحت ہوتی ہیں یا ان کے اجازت نامے کے بعد چلتی ہیں، ایسی دکانیں غیر مسلم شہریوں کے لیے بنائی جاتی ہے یا اس کا تاثردیا جاتاہے کیونکہ مسلمان کا نام اس لیے نہیں دیا جاتاہے کہ ہمارے مذہب میں شراب کو حرام قرارد یا گیا ہے یہ ایک الگ بات ہے کہ ان دکانوں سے کتنے ہندویا عیسائی فیض یاب ہوتے ہیں اور کتنے مسلمان ان دکانوں کے چکر لگاتے ہیں۔جہاں تک پاکستان میں موجود اقلیتوں کے تحفظ کی بات ہے تو یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے ارد گرد موجود غیر مسلم شہریوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کریں یہ سب کچھ سوچتے ہوئے کہ ہم پاکستانی بعدمیں ہیں اس سے پہلے ایک ایسے مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بنیاد ہی انسانیت کی خدمتسے شروع ہوتی ہے چاہے وہ انسان کسی بھی فرقے ہا مذہب سے تعلق رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو!۔
ہمیں یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیئے کہ بھارت میں موجود مسلمانوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتاہے بلکہ ہمیں اپنے مذہب اور قانون کو سامنے رکھنا ہے ۔قارین کرام گزشتہ چودہ سالوں سے جاری ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات نے جس طرح ہر شہری کو ایک دوسرے کے لیے خوف کی علامت بنادیا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اتنہا پسندانہ رحجانات کا نشانہ زیادہ تر مذہبی اقلتیں ہی بنتی رہی ہیں اور پے درپے واقعات کے بعد حکومت وقت بھی ان کو حقیقی تحفظ دینے میں ناکام نظر آئی یعنی اگر کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا تو احکومت نے سرکاری سطح پراس حملے کی مذمت تو کی اور ایک عدد بیان بھی جاری کردیا کہ حکومت فلاں فلاں فرقے کے لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی مگر افسوس یہ محض ایک بیان ہی رہا اس وقت تک جب تک کوئی اور ایسا ناخوشگوار واقع سامنے نہیں آگیا یعنی اگر حکومت نے اپنا وعدہ وفا کیا ہوتا تو شاید اس طرح کے مزید سانحات سے بچا جاسکتا تھا؟۔حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے کیئے گئے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے تمام مسالک کے مدارس ان کی مذہبی عبادتگاہوں کو دہشت گردی کے مزید سانحات سے بچانے کے لیے ان کو سیکورٹی فراہم کرے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں میں زیادہ تو لوگ کم تعلیم یافتہ اور غریب ہوتے ہیں۔
Facilities
ان کی مالی حالت بھی عموماً کمزور ہوتی ہے جس کی وجہ سے ریاست انہیں بہت سی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہوتی ہے ،یہ زیادہ تر صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں موجود ہیں ایک رپورٹ کے مطابق صرف تھر پار میں 16 لاکھ ہندوبرادری کی آبادی بتائی جاتی ہے جو کہ انتہائی غریب اور ہر طرح کی بنیادی سہولیات سے محرو م ہیں جب ہم تھر پارکر کازکر کرتے ہیں تو اس میں سندھ کے مشہور اضلاع عمرکوٹ اور میر پور خاص بھی شامل ہوتے ہیں جس میں سانگھڑ ،اسلام کوٹ ،مٹھی چھاچھرو،کھپرو جیسے علاقے شامل ہیں جہاں ہندوبرادری کے لوگ بہت زیادہ تعداد میں ہیں اسی طرح حیدرآباد، ٹنڈومحمد خان،میرپورخاص،لاڑکانہ اور سکھر ،جیکب آباد میں یسوع مسیح کے لوگ ( عیسائی مذہب) سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں ان تمام مقامات پر دہشت گرد وں نے اپنے وار کیئے ہیں جن کی تفصیل اگرمیں نے لکھی تو یقیناًمیری تحریر اپنے مقررہ اہداف سے تجاوز کرجائے گی،جن جگہوں کا زکر کیا جارہا ہے یہاں ماضی میں اقلیتی برادریاں عدم تحفظ کا شکار رہی ہیں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گھروں پر قبضے کیئے گیئے انہیں اغوا کیا گیا اور ان سے تاوان بھی مانگا جاتا رہا۔
یہ سب کچھ بیان کرنے کامقصد یہ ہے پاکستان کے جھنڈے میں دو رنگ سبز اور سفید بھی اسی بات کی علامت ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں بسنے والی تما م اقلیتوں کو برابری کا تحفظ اور حقوق فراہم کرتا ہے ۔ حکومت کی جانب سے جہاں ان لوگوں کو اسمبلیوں میں بھی مخصوص نشستوں سے نوازا گیا ہے وہاں عملی اقدامات کرتے ہوئے ان کی جان ومال کے تحفظ کے ساتھ ان کے علاقوں میں اسکولوں اور طبی سہولیات کی کمی کو بھی پورا کیا جانا چاہیئے ۔ جہاں تک مخصوص نشستوں یا سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقلیتی نمائندوں کو پارٹی ٹکٹ دیئے جانے کا معاملہ ہے اس میں بھی ان ہی اقلیتی حلقوں میں ٹکٹیں دی جاتی ہے جہاں اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد یا اکثریت زیادہ ہو،حکومتوں کی جانب سے اس طرح کے امتیازی واقعات کی وجہ سے ایک احساس محرومی ان مختلف مسالک کے لوگوں کو آئے توروز سڑکوں پر آنے پر مجبور کرتا رہتا ہے جو نہ صرف حکومت کی نیک نامی بلکہ آئین میں درج تمام فرقوں کے تحفظ کی شق کو جھٹلاتا رہتاہے۔ختم شد
Sajid Habib Memon
تحریر ساجد حبیب میمن ترجمان آل پاکستان میمن یوتھ موبائل: 03219292108 ای میل: apmykhi@gmail.com