تحریر: اقبال کھوکھر نفرت کی آگ کتنے گھروں کو جلاگئی, اک بھیڑ سی لگی تھی کفن کی دکان پر ابھی کوئٹہ، پشاور اور کراچی کے دھماکوں کی گونج اورجوزف کالونی کے جلائے جانے پرسینکڑوں بے گناہ معصومین کی چیختی چنگاڑتی سسکیوں کی آواز مدھم نہیں ہوئی تھی کہ صوبہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سے چند کلومیٹر دور ضلع قصور کی چوتھی تحصیل کوٹرادھاکشن کے نواحی گائوں روسہ بھیل چک نمبر59میں بھٹہ یوسف گجر پرتاریخ کے المناک پر ہزاروں افراد نے قانون کی پرواہ کئے بغیرمسیحی محنت کش میاں بیوی کومنصوبے کے تحت مالک کی قید میں سے نکال کر دھاوا بول دیا ،جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں افراد پر مشتمل ساری ہجوم نے ان پر توہین رسالت کے شبے میں تشدد کیا اور اس پر بھی صبرنہ آیا تو انہیں بھٹے کی آگ میں پھنک دیا جہاںوہ مشتعل افراد کے اشتعال کا نشانہ بن کر منٹوں میں راکھ اوردھواں بن گئے۔؟ خوف کے باعث آبادی کے مکین اپنے گھروں سے جان بچانے کے لئے نکل گئے ۔پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق شہزاد اور شمع نے کوئی بے حرمتی نہیں کی ۔وجہ رقم کا لین دین اور ذاتی ناگزیر بیان کردہ گھنائونے مقاصد تھے۔جس کی رپورٹ سابق میگزین میںشائع کی جاچکی ہے۔
تھانہ فیکٹری ایریا چوکی کے انچارج محمدعلی کی مدعیت میںنامزد اور نامعلوم سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا گرفتاریاں ہوئیں،جوڈیشنل وپولیس ریمانڈز ہوئے ،تفتیش وکارروائی اب ضمانتوں کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔گو کہ قومی وبین الاقوامی احتجاج پر وزیراعظم نے بھی اس واقعے کی رپورٹ متعلقہ حکام سے طلب کر لی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے شہزاد اور شمع کے بچوں پر دست شفقت رکھتے ہوئے50لاکھ روپے فکس ڈیپازٹ کروادیے دس ایکڑ اراضی بھی دے دی گئی مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔جوزف کالونی کے سانحے کے بعد محترم شہبازشریف نے دوچار پولیس فسران کومعطل کرنے،متاثرین کوچند لاکھ دینے ،ان کے گھروں کی تعمیر سمیت مسیحی برادری کی خود حفاظت کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔پاکستان کی محب وطن مسیحی قوم نے سوال اٹھایا کہ بغیر تصدیق وتحقیق ناکردہ جرم کی سزا سارے خاندان ومعاشرے کو دینا کہاں کا انصاف یا قانون ہے؟ایم اے جوزف فرانسس سمیت ملک بھر کی سیاسی،سماجی،مذہبی اور عوامی شخصیات وجماعتوں نے ملک بھر میں احتجاجی جلسے،جلوس،ریلیاں،پریس کانفرنسزاورمذمتی دھرنوں کا سلسلہ جاری کررکھا ہے جس کا مقصد مذہبی لاقانونیت کی پرزور مذمت اور متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی ویکجہتی ہے۔مسلم علمائے کرام بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالخبیر،اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر مولانا طاہراشرفی، جماعت اسلامی کے امیر منور حسن،مولانا مجد،علامہ راغب نعیمی،فضل کریم سمیت دیگر علمائے دین کی طرف سے بھی پریس کانفرنس میں مذمتی بیانات سامنے آئے ہیں جو کہ شرپسندی کی حوصلہ شکنی ہیں۔عالمی سطح پر بھی اس سانحے کی شدید مذمت کی گئی۔
تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔یہ بات قابل غور ہے کہ پولیس کی موجودگی میں یہ جان لیوا انسانیت سوز کھیل کھیلا گیا ۔تمام تر وسائل کے باوجودانہوں نے حفظ ماتقدم کے لئے جامع اقدامات کیوں نہیں اٹھائے؟بلاشبہ کوئی بھی اہل کتاب کسی پیغمبر یا دین کی شان میں گستاخی کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔اگر خدانخواستہ کوئی فردایسی گستاخی جو کہ ثابت بھی ہو، کا مرتکب بھی ہوتا ہے تو اس کے لئے باقاعدہ قانون موجود ہے لیکن سابقہ تمام مشاہدات سامنے ہیں کہ اس قانون کا زیادہ تر استعمال غلط کیا جاتا رہا۔بعض لوگ ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے مخالفین کو توہین رسالت کے مقدمات میں پھنسواتے رہے اور زیادہ تر اقلیتی افراد کو ہی ایسے مقدمات کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
Pakistan
شانتی نگر، قصور باہمنی والا،گوجرہ،آسیہ بی بی،جوزف کالونی لاہور،اسلام آباد معصوم رمشاء ،سیالکوٹ، شیخوپورہ ودیگر واقعات کی ایک لمبی لسٹ اس طرح کی الم ناک مثالیں ہیں۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگالیں کہ اس واقعے میں بھی اس اسلام کے نام پردہشت گردی اور خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے جو اپنے پیروکاروں کوامن وسلامتی،بھائی چارے اور برداشت کا درس دیتا ہے۔مدینہ منورہ سے زیادہ آئیڈیل کوئی اسلامی ریاست نہیں لیکن مدینہ میں تو غیرمسلم بھی صدیوں سے آباد رہے۔وہاں حضرت محمدۖ کے بعد خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی انہیں مکمل تحفظ میسررہا۔پھر آج مسیحی برادری کے گھروں اورجسموںکو نذرآتش کرنے کا کیا جواز ہے؟دنیا کے تمام مذاہب ہی امن،محبت اور بھلائی کا پیغام دیتے ہیں ۔اگر ملزم بعداز غیر جانبدارانہ تحقیقات اور عدالتی فیصلے پرمجرم ثابت ہوجاتا ہے تو اسے سزاضرور ملنی چاہیے لیکن اس کے باقی اہل خانہ یا برادری کو قطعی نہیں۔ بعض دوست تو ہمیشہ یہ خدشہ رکھتے ہیں کہ ماضی میں ہونے والے واقعات کے مجرموں کو اگر قرارواقعی سزادی جاتی توایسے سانحات سے بچا جاسکتا تھا مگر حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا۔اب حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانے میں اقلیتی حلقوں کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرنے اور بشپ الیگزینڈر جان ملک کو سربراہ بنانے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے قائداعظم کے وعدوں کے مطابق اقلیتوں کے حقوق دینے میں حقیقی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اس حوالے سے اگرغیرجمہوری انتخاب کے ذریعے ہم پر مسلط کئے گئے ممبران پارلیمنٹ بھی مسیحی نمائندگی کا حق ادا کردیں تو قوم پر احسان ہوگا۔
ہم پہلے بھی متعدد بار انہی سطور میں گزارش کرچکے ہیں اور پھر دہراتے ہیں کہ ماضی کے تلخ تجربات اور حالیہ اندوہناک سانحے کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مستقبل میں ایسی ناخوشگواریت صورتحال سے بچنے کے لئے توہین رسالت کے قانون کے غلط اور ذاتی اناوپسند یا انتقام کے طور پر استعمال کرنے سے روکا جائے۔اور اس کا ایک آسان سا طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگرکسی کا درج کردہ توہین رسالت کا مقدمہ غلط ثابت ہوجائے تو پھر مدعی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔اور اس کی سزا بھی ڈبل ہو تاکہ کسی کو بھی اس حساس قانون کو بنیاد بناکرناحق خون کی ہولی کھیلنے ، معاشرے کے سکون کو برباد کرنے اورریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی جرات نہ ہو۔اس کے ساتھ ہی حکومت کو معاشرے میں تحمل،برداشت،رواداری اور بھائی چارے کی فضاء قائم وبرقرار رکھنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے اور اس حوالے سے معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً علمائے کرام اپنا دینی واخلاقی کردار ادا کریں۔چک نمبر59میں یوسف گجر بھٹہ پر مسیحی محنت کش شہزاد اور اس کی حاملہ بیوی شمع پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام کے تحت ان پر بے پناہ جسمانی تشدد کے بعد انہیں بھٹہ کی جلتی آگ میں جلانے کے الم ناک سانحے پر شدید دکھ اور افسوس کے ساتھ گہری تشویش کابھی اظہار کیا ہے۔اس حوالے سے تعزیتی ریفرنس،میموریل سروس اورعلامتی احتجاج کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں حکومت سے اپیل کی گئی کہ اس دردناک واقعے کے ذمہ داران کو قرارواقعی سزا دی جائے اور بغیر تصدیق وتحقیق کے ذاتی عناد ومعاملات کی خاطر ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے موثر اور ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔تمام سماجی ادارے ومعاشرے کے ذمہ داران اس سانحے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحے کی مکمل اور ٹھوس تحقیقات کی جائے،ذمہ داران افراد کو بلاکسی تفریق ودبائو کے عبرتناک سزا دی جائے اور متاثرین کی ازسرنو بحالی واعتمادسازی کے لئے صرف جمع خرچی نہیں بلکہ عملی اخلاقی ومالی مدد کی جائے تاکہ پاکستان کا قومی تشخص برقرار رہے۔ (نوٹ میرے ساتھ مارٹن جاوید مائیکلPCNP،ریورنڈ اشفاق نوید GDM،سہیل ہابل CLAAS،عابد گلNCJP،سسٹر رما، مبشر ارشد یعقوب، مبشرامانت بھٹی، اشرف انجم، پاسٹر نسیم دیال، پاسٹر طالب ،پاسٹر فضل الہٰی، پاسٹر وقاص حنیف، پاسٹر حنیف، پاسٹر صوفی فیاض اور دیگر دوست موجود تھے۔)
شہزد کے بچے،ورثاء اورسال نو کی آمد کے بارے میں عرض ہے کہ شہزاداورشمع کے بچوں کے بارے میں سوچیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ان معصومین کو کیا خبر تھی کہ کرسمس2014ء اور سال نو2015ء کو وہ اپنے والدین کے بغیر منانا کیا؟ گزاریں گے۔ان کی خوشیاں تو ساری عمر کی محرومیاں بن کرہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی۔ہم یہاں یہ نہیں کہتے کہ ان کے نانا،چچائوں،پھوپھوئیں یا دیگر عزیزواقارب ان کی دیکھ بھال نہیں کریں گے بلکہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کو اس فانی دنیا میں زندگی کی سانسیں گزارنے کے لئے جس قدرذاتی،خاندانی،مذہبی، معاشرتی اور ریاستی معاملات میں اپنے والدین کی ضرورت ہوتی ہے شاید ہی کسی اور رشتے کی ہو۔اس لئے ہماری دعا ہے کہ شہزاداور شمع کے بچے ہر قسم کی محرومی، مایوسی، پریشانی، دکھ، تکلیف، جبر، غلامی اوربرے رویے سے سدا محفوظ رہیں ،آزادی کے ساتھ مکمل وفاداری کے طور پر خدا کے پیروکار رہیں اورتاحیات قدم قدم پر خوشیاں ان کااستقبال کریں۔ ہم ساری دنیا سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان معصومین کو اپنی روزمرہ خصوصاً کرسمس عبادات کی دعائوں میں یادرکھیں۔اب تک کی تجزیاتی صورتحال کے تناظر میں ہم شہزاد اور شمع کے تمام ورثاء سے گزرش کرتے ہیں کہ وہ کسی دبائو،لالچ یا عارضی خیالات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپس میں صلح، سلامتی، محبت اور برداشت کے خاندانی جذبے کے ساتھ ذاتی اختلافات کو ختم کریں اور دوسروں کے آلہ کار بننے کی بجائے اپنے آپسی رشتوں کو خلوص کے ساتھ قبول کریں اور وہ گفت وکردار کریں جس کی اس وقت ان کے ساتھ ساتھ شہزاد اور شمع کے بچوں کو بھی ضرورت ہے ۔کرسمس2014ء کا پیغام ہے کہہم ہر قسم کی نفرت ،عدم برداشت سوچ ،غلامی اورظلم وجبر کو ختم کرکے امن،صلح،سلامتی،خوشی،محبت اور آزادی دینا ہے۔اور اگر ہم دل سے ایسا کرپائیں تو پھر ہی ہم سال نو2015ء کو خوش آمدید کہ سکیں گے۔