تحریر : بدر سرحدی کیااقلیتوں کا مستقبل محفوظ ہے اور کیا یہ لوگ بھی آزاد ہیں ایسے ہی اور سوالات بھی ہیں ….ملک میں بہت ساری مختلف اقسام کی اقلیتیں ہیں ان میں بعض مسلم فرقے ہیں جنہیں اسلام سے خارج کر دیا گیا ہے گو وہ خود کو غیر مسلم نہیں مانتے…. ،یہاں ان سے بحث نہیں دیگر مذہبی اقلیتوں میں ہندو ،سکھ اور مسیحی ہیں ،ہندؤں کی بڑی تعداد سندھ میں انہیں کچھ بھی مشکل نہیں وہ کسی بھی مشکل گھڑی میں بارڈر پار کر سکتے ہیں ،سکھ فاٹا میں بکھرے ہوئے ہیں وہ سکون میں تھے مگر طالبان نے انہیں ڈسٹرب کیا ہے یہ لوگ بھی جب چاہیں بھارت جاسکتے ہیں……اب رہے مسیحی تو یہ ہر گھڑی مشکل میں ہیں اور کہ دنیا کے نقشہ پر کہیں بھی کوئی مسیحی مملکت دکھائی نہیں دیتی جہاں یہ لوگ بھاگ کر پناہ لیںاور خود کو بچا سکیں، اوراب پاکستان میں رہنا ان کے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے ،پا کستان کی تاریخ ایسے سانحات سے بھری ہے ان کی تفصیل رقم کرنے کے لئے دفتر درکار ہے،
گذشتہ مئی میں گلشن راوی لاہور میں مسیحی آبادی دُھپ سڑی میں،مقدس اوراق کی بے حرمتی کا واقع ہوأ، کہ ایک ذہنی طور پر ابنارمل شخص بتایا گیا جو مقدس اوراق کی بے حرمتی کر رہا تھا ، بس پھر کیا تھا پاکستان میں رائج قانون توہین مذہب ،قرآن اور توہین رسولۖ کے مطابق کسی طرف سے یہ آواز آنا چاہئے اور لوگ کا جم غفیر جمع ہوجانا، یہ کوئی نہیں جاننا چاہتا کیا ہوأ کیسے ہوأ ،وہاں کی مسیحی آبادی کے خلاف جہاد کے لئے لوگ جمع ہوگئے ،غریب نہتے مسیحیوں نے گھر بار چھوڑ کر بھاگ جانے میں عافیت سمجھی مگر جمع ہونے والے لوگوں نے کچھ تو کرنا تھا لہٰذا توڑ پھوڑ کی خالی گھروں پر حملہ جائز اور شرعی تھا ، اب مقدس اوراق کی تفصیل اس طرح بیان کی کہ بجلی کے پول کے ساتھ ڈبے باندھے دیکھے جاتے ہیں جن میں لوگ مقدس اوراق زمین سے اُٹھا کر ڈال دیتے ہیں ، مقدس اوراق کی بے حرمتی کے واقعات معمول کی بات ہے،
اب یہ مقدس اوراق ہوتے کیا ہیں ؟آج تک یہ طے نہیں ہو سکا ،ورق کی جمع اوراق،کتاب کسی صفحہ ہی کو ورق کہا جاتا اور اگر زیادہ صفحات ہوں تو پھر انہیں اوراق کہا جائے گا،ہر روز ہی یہ سُنتے ہیں اسلام سلامتی اور رواداری کا دین مگر کوٹ رادھا کشن کے واقع میں جس میں ایک مسیحی جوڑے کو اُٹھا کر جلتے ہوئے بھٹے میں پھینک دیا گیا جہاں اُن کی راکھ بھی نہیں ملی جرم یہی تھا کے مقدس اوراق کی بے حرمتی ،کسی نے بھی یہ جاننے یا سمجھنے کا ضرورت ہی نہیں سمجھی کے اوراق کیا تھے جنکی بے حرمتی کی گئی بس کسی طرف سے یہ آواز آ جائے کہ مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ،یہ بد قسمت شخص کی موت کا پروانہ ہوتا ہے یہاں اُس کے لئے قانون و انصاف کی کوئی چیز نہیں .. ….اب دھپ سڑی واقع میں بھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی
Law
حتیٰ کہ قانون و انصاف کے معتبر ادارے نے بھی تحقیق نہیں کی کہ یہ مقدس اوراق کیا تھے اُس ڈبے میں کس نے کہاں سے لا کر ڈالے،کیوں ڈالے کیا جس نے ڈالے اس نے بے حرمتی نہیں کی (یہ امریکا نہیں جو اسلام کا دشمن مگر وہاں انصاف زندہ ہے اوکلا ہاما کے شہر تُلسہ کی رہائشی مسلم خاتون سمانتھا ایلاف نے بچوں کے کپڑوں کے سٹور میں ملازمت کے درخواست دی تو اُسے انٹرویو کے لئے کال کیا جب اپنے مخصوص لباس سر پر سکارف پہنے گئی تو سٹور کی انتظامیہ نے اُسے سکارف کی وجہ سے انکار کیا ،اس نے مقدمہ دائر کیا یہ کیس چلتے چلتے امریکی سپریم کورٹ تک پہنچا جہاں ٩، جج سماعت کرہے تھے ….یکم جون ٥ا٢٠،کو اسکا تاریخی فیصلہ ہوأ نو میں سے آٹھ ججوں نے مسلم خاتون سمانتھا ایلاف کے حق میں فیصلہ دیا اور سٹور انتظامیہ کو بیس ہزار ڈالر جرمانہ بھی کیا جومتاثر خاتون کو دیا گیا اور پورے امریکا میں بسنے والے تیس لاکھ مسلمانوں نے خوشی منائی ،ان کے ساتھ یہودیوں اور سکھوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا،
اسی طرح کا فیصلہ ٤،مارچ ٥ا٢٠کو نیو یارک کے مئیر بل ڈی بلازیو]BillDeBlasio[نے کیا کہ مسلمان بچے عیدین کے موقع پر دو چھٹیاں کر سکیں گے جو پہلے ایک چھٹی بھی نہیں تھی…..اورپاکستان میں مسیحی اپنے ہی ملک میں امتیازی قوانین کا ہر وقت شکار ،یہاں عید ولادت المسیح پر ایک دن کی بھی چھٹی نہیں ،جبکہ المسیح صرف مسیحیوں کا ہی نہیں بلکہ قرآان کے حوالوں سے ایک کلمتہ اللہ بھی ہیں.. ..مگر آج تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں آیا کہ دنیا میں اس فیصلہ کو سراہا گیاہو.. ) بے شک کوئی فاترالعقل ہی کیوں نہ یہ ہانک لگا دے کہ فلاں جگہ فلاں نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی بس کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ،گوجرہ میں یہی کچھ ہوأ آٹھ زندہ انسان جلا دئے گئے ،سانگلہ ہل ،اس سے پہلے شانتی نگر ،جوزف کالونی ،آج تک کہیں سے انصاف نہیں ملا،اور پھر ٥ا مارچ ٥ا٢٠،کو یوحنا آباد میں ہونے والے واقع دھماکوں میں ا٢،لوگ مارے گئے ،پولیس نے دو مشتبہ افراد حراست میں لئے تھے کیوں ؟یہ ہمیشہ راز ہی رہے گا ،انہیں مشتعل عوام کے حوالے کر دیا کیوں ؟ یہ بھی ہمیشہ راز ہی رہے گا،
جنہیں ہجوم نے ہلاک کر کے جلایا ،جس کے بعد یوحنا آباد کی فضاؤں پر کئی دنوں تک انجانا خو ف طا ری رہا بڑی تعداد میں لوگ گھر بار چھوڑ کر نکل گئے حالانکہ، کہیں بھی تحفظ نہیں اور کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں حتیٰ کہ قبریں بھی محفوظ نہیں….. ،میں نے پاکستان کی ٦٧ سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے چاروں طرف خوف محسوس کیا جب گلیوں میں سوٹی بردار پولیس دیکھی ،اور جب گلشن راوی میں مسیحیوں پر حملہ کرنے کے لئے ہجوم نعرے لگا رہا تھا….تو پھر یہ سوال اسامنے تھا کہ ایک شخص جس کے متعلق یہ کہا گیا کہ وہ ذہنی طور پر ابنارمل ،یہ الگ بات کہ وہ ابنارل تھا یا نہیں سوال یہ ہے کہ باقی آبادی کا کیا قصور تھا کہ اُن پر حملہ کا منصوبہ بنایا گیا اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں پوری مسیحی آبادی کو ختم کرنے کا بہانہ چاہئے
Youhanabad Incident
ورنہ تو پہلے یہ تلاش کیا جاتا کہ یہ مقدس اوراق کیا تھے اور ڈبے میں کہاں سے اور کیسے آئے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ زمین پر پڑے کسی نے اُٹھائے تب کیا اُن کی بے حرمتی نہیں ہو چکی تھی ،سچ تو یہ ہے کہ اردو اخباارات ہی پہلے بے حرمتی کے مرتکب نہیں ہو رہے ….لیکن مسیحیوں کو نشانہ بنانے کے لئے کوئی بہانہ ضروری ہے اب سوال ہے پھر وہی کہ مسیحی ہی کیوں ؟ نشانہ بن رہے ہیں ،اس لئے کہ ملک میں ان کے تحفظ کے لئے کوئی قانون ہی نہیں اگر کوئی ہے تو قانون و انصاف کے تمام اجزاء ترکیبی مسلمان ہیں جسے قومی اسمبلی کہا جاتا ہے وہ ہرگز قومی اسمبلی نہیں وہ مسلمان اسمبلی ہے وہاں صرف اور صرف مسلمانو ںکے مسائل ہی زیر بحث آتے ہیں اگر کبھی کوئی آواز آئی تو محض دکھلاوا ہوتی ہے،
جو اقلیتی نمائندے بٹھائے گئے ہیں وہ ہر گز مسیحیوں کے نمائندے نہیں وہ تو اُس پارٹی کے،اب ایسے ماحول اور حالات میں انصاف کی توقع خود فریبی ہوگی اگر کسی کو اس میں کوئی شک ہے تو پاکستان کی تاریخ سے کوئی ایک یا کسی واقع کی نشناندہی کی جائے کہ مسیحیوں کو انصاف ملا ہو دو ہزار نو میں گوجرہ کا سانحہ جس میں املاک کے نقصان کے آٹھ انسان زندہ جلا دئے گئے تفتیش ہوئی
مگر نتیجہ کیا نکلا صفر ….سانحہ یوحنا آباد میں ا٢ہلاک ہوئے جن چھ مسلمان بھی تھے زخمیوں کی تعداد سو سے زیادہ تھی مگر الٹا تین سو مسیحیوں کو گرفتاکیا گیا کیوں ؟ کوئی جوڈیشل انکوائری نہیںہوئی کہ وہ جلائے گئے دو مسلمان کیوں؟ آئے تھے پولیس نے کیوں؟ حراست میں لئے پھر انہیں ہجوم کے حوالے کیوں کیا ؟میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں مسیحیوں کا مستقبل انتہائی بھیانک ہے کسی بھی وقت لاشے اُٹھانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا،