تحریر : بشارت شہزاد گل پاکستان کی مذہبی اقلیتیںقومی و صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کے حوالے سے آج بھی تذبذب کا شکار ہیںاور اقلیتی حلقوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد موجودہ طریقِ انتخاب سے اختلاف کرتی ہے۔اس وقت ملک کے قانون ساز اداروں میں نمائندگی کے لئے اقلیتوں کے لئے سابق صدر پرویز مشرف کا متناسب نمائندگی کا نظام نافذالعمل ہے جس کے تحت قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتی نشستوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کی حاصل کردہ نشستوں کے تناسب سے ان میں بانٹ دیا جاتا ہے۔یوں قانون ساز اداروں میں اقلیتی ممبران کا انتخاب الیکشن کی بجائے سلیکشن کے ذریعے عمل میں آتا ہے۔چونکہ اس طریقِ انتخاب کے ذریعے منتخب اقلیتی نمائندے اقلیتی ووٹرز کی بجائے اپنی حمایت یافتہ جماعتوں کو جوابدہ ہوتے ہیں۔لہذا اپنی اپنی کمیونٹی کی موثر نمائندگی کرنے کی بجائے وہ زیادہ وقت ان سیاسی جماعتوں کی خوشامد و وفاداری میں صرف کرتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ فکر ہے کہ ان اقلیتی نمائندگان کا انتخاب بھی چند مخصوص شہروں ہی سے کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی اقلیتی آبادی کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ان اقلیتی ممبران کے ترقیاتی فنڈز بھی ان مخصوص شہروں میںہی خرچ ہوتے ہیںاور دور افتادہ اقلیتی آبادیاںانکی توجہ سے محروم رہتی ہیں۔اقلیتوں کے مختلف النوع مسائل کے حوالے سے یہ نمائندے جس عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیںوہ یقینناً ایک بہت بڑا المیہ ہے۔متناسب نمائندگی کے اس طریقِ کار پر عدم اطمینان کے ذمہ دار درحقیقت یہی اقلیتی نمائندے ہیںجنہیں اپنی کمیونٹی کے مسائل و مشکلات کے حل سے کوئی سروکار نہ ہے اور ان کا واحد مقصد اقلیتوں کے نام پر قانون ساز اداروں میں نمائندگی کے ثمرات سمیٹنا ہے۔اب صورتحال یہ پیدا ہو چکی ہے کہ اقلیتی عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد اس طریقِ انتخاب میں تبدیلی کی خواہاں ہے اور سلیکشن کی بجائے الیکشن کے ذریعے نمائندگی کا مطالبہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔لیکن نہ تو موجودہ اقلیتی نمائندگان ہی اس بات پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی حکومت اس سلسلہ میں اقلیتی حلقوں کے خدشات دور کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔سابقہ اور موجودہ حکومت کی طرف سے انتخابی اصلاحات کے عمل میں بھی اقلیتوں کے اس اہم مسئلے پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔
مقامِ حیرت ہے کہ دونوں حکومتوں نے اصلاحاتی کمیٹیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی تو درکنار اس مسئلے پر بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ان دونوں ادوار میں اصلاحاتی کمیٹیوں کے درجنوں اجلاس منعقدہوئے اور اسی دوران اقلیتی حلقوں کی طرف سے یہ معاملہ زیرِ بحث لانے کے مطالبات بھی کئے جاتے رہے لیکن کوئی پیش رفت نہ ہو پائی ۔اب جبکہ عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور حکومت اس حوالے سے اپنی ترجیحات کا تعین کررہی ہے۔لہذا اسی ترجیہاتی عمل میں اقلیتی عوام بھی اسکی توجہ کے مستحق ہیں اور یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اقلیتوں کو درپیش اس اہم مسئلے کو بھی حل کیا جائے۔اس بابت حکومت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اقلیتی عوام کی آراء و تجاویز لے،اقلیتوں کے سیاسی و سماجی حلقوں کے نمائندگان کو بلا امتیاز سیاسی وابستگی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے اور انکی آراء و تجاویز کی روشنی میں اقلیتوں کے طریقِ انتخاب کی تشکیلِ نو کرے۔