تحریر : ساحل منیر پاکستان کی مذہبی اقلیتیں اِس وقت بِلاشبہ دوہرے استحصال کا شکار ہیںکیونکہ انہیں نا صِرف آئین و قانون کی پیچیدگیوں میں چھپے امتیازات ١و راکثریتی مائنڈسیٹ کے مخصوص تعصبات کا سامنا ہے بلکہ اقلیت کے نام پر ایک غیر جمہوری طریقِ کار کے تحت منتخب ممبران اسمبلی کی بے اعتنائیوں کو بھی سہنا پڑ رہا ہے۔ اِن ممبران اسمبلی بالخصوص مسیحی سیاسی قیادت کو ملک کے طول و عرض میں بکھری ہوئی درماندہ و پسماندہ اقلیتوں کی محرومیوں سے بیانات کی حد تک تو تعلق ہوسکتا ہے مگر ان کے حقیقی مسائل کے ادراک و حل سے انہیں رتی برابر دلچسپی نہ ہے۔ چونکہ موجودہ طریقِ کار کے تحت ان کا کوئی مخصوص حلقہء انتخاب نہ ہے اِس لئے قومی سطح پر یہ پورے ملک اور صوبائی سطح پر اپنے اپنے صوبے کی تمام اقلیتوں کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں اوراِسی نسبت سے ان کے ترقیاتی فنڈز سمیت اختیارات و اقتدار کے ثمرات بھی لاہور، فیصل آباد و اسلام آباد کی جغرافیائی حدوں سے باہر عام لوگوں تک پہنچنے چاہئیں۔لیکن اِن کی کارکردگی اِس بات کی گواہ ہے کہ یہ اپنے ایک مخصوص حصار سے باہر نکلتے ہی نہیں ہیں۔۔۔۔
آج بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم دور افتادہ شہری و دیہاتی اقلیتی آبادیاںا پنے نمائندگان کا منہ دیکھنے کو ترس گئی ہیں ۔اپنے مصائب و مشکلات کے حل کے لئے یہ لوگ ان کی حقیقی توجہ چاہتے ہیں ۔مگر یہ عوامی نمائندے اور قائدین اپنی ہی دنیا میں مست و بے خبر چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔اِن لوگوں کے کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز نہ جانے کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ ملازمتوں میں اقلیتی کوٹے کے حوالے سے آج بھی بے شمار تحفظات پائے جاتے ہیں۔کیونکہ اول تو اِس مختص کوٹہ پر صحیح معنوں میں عمل ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی جائے تو اقلیتی کمیونٹی کے افراد کو دوردراز علاقوں میں تعینات کرتے ہوئے سفری صعوبتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
اِس سلسلہ میں نہ تو افسر شاہی ان کی کوئی دادرسی کرتی ہے اور نہ ہی اپنے یہ نامزد نمائندے۔مسیحی کمیونٹی کے تعلیم یافتہ نوجوان اِس بات کے شاکی ہیںکہ اِس سلسلہ میں اصلاح احوال کے لئے جب بھی اپنے نمائندگان سے رابطہ کی کوشش کی جاتی ہے توانکے رابطہ نمبر یا تو بند پائے جاتے ہیں یا کوئی جواب ہی موصول نہیں ہوتا۔نتیجتناً یہ بے یارو مددگار نوجوان اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
Protest
اقلیتی نمائندگان کے اِسی ناپسندیدہ طرزِ عمل کی وجہ سے یہ عمومی تاثر تقویت پا رہا ہے کہ اقلیتوں کے لئے متناسب نمائندگی کے نام نہاد طریقِ انتخاب کے تحت مختلف جماعتوں کے نامزد کردہ اقلیتی نمائندگان ِصوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ملک کے طول و عرض میں لاتعداد مسائل و مشکلات کا شکار اقلیتی کمیونٹی سے کوئی سروکار نہ ہے ۔بالخصوص جنوبی پنجاب میں آباد اقلیتوںکی ایک قابلِ ذِکر تعداد یہ سمجھتی ہے کہ سینیٹر کامران مائیکل اور صوبائی وزیرِ اقلیتی امور و اِنسانی حقوق خلیل طاہر سندھو سمیت دیگر اقلیتی نمائندگان انہیں نظر انداز کرنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں ۔واضح رہے کہ ہم کِسی صورت بھی جداگانہ طرزِ انتخاب کو سپورٹ نہیں کرتے اوراقلیتوں کے لئے مخلوط طریقہء کار کو پاکستانی سماج میں بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کا ذریعہ قرار دیتے ہیں لیکن اقلیتی نمائندگان کے اِن ڈائریکٹ انتخاب نے انہیں عوامی جوابدہی کے خوف سے آزاد کر کے انکی کارکرگی پر سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ کے بغیر قانون ساز اداروں میںموجود سیاسی جماعتوں کے نامزد اقلیتی اراکین نے مذہبی اقلیتوںکے حقوق و مفادات کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے جو کہ کسی صورت بھی حوصلہ افزاء امر نہ ہے ۔بدیں وجہ اقلیتی کمیونٹی ان لیڈرز سے بد ظن ہوتی جا رہی ہے۔اِس قسم کا عوامی ردِ عمل قیادت کے فقدان و بحران کے المیوں کو جنم دیتا ہے جنکے معاشرے پر ہمیشہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اِس وقت ہم انکے متحمل نہیں ہیں۔
لہذا میری اِن صاحبانِ اقتدار سے گزارش ہے کہ براہِ کرم اپنے محلات و کوٹھیوں اور لاہووراسلام آباد کی مسحور فضائوں سے باہر نکلیں اور اپنی کمیونٹیزکے سروں پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے انہیں اپنے بھرپور اعتماد کا یقین دلائیں۔تاکہ اگر کل کلاں ڈائریکٹ ووٹ کے لئے بھی آپ کو اِن لوگوں کے پاس آنا پڑے تو واپس خالی ہاتھ نہ لوٹنا پڑے۔ویسے بھی بیسویں صدی کے عظیم فرانسیسی ادیب اور ناول نگار ژاں پال سارتر کے بقول اِنسان کو نہ صِرف محسوس کرنا چاہئے بلکہ اپنے اِرد گِرد پھیلے ظلم اور نا اِنصافی کا پوری طرح ادراک بھی کرنا چاہئیے۔ مانو نہ مانو جانِ جہاں اِختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں