تحریر: عمران احمد راجپوت پاکستان میں عوامی سطح پر کچھ قوتوں کی جانب سے ایم کیوایم میں مائنس الطاف فامورلے سے متعلق ایک قسم کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔یہ طاقتیں کون ہیں اور ایسا کیوں چاہتی ہیں ایسا کرنے سے اِن طاقتوں کو کیا حاصل ہوگا اِس کے پیچھے اِنکے کیا مقاصد ہیں اور کیا ایسا کرنا ملکی مفاد میںہے ؟؟ اِس بارے بطور تجزیہ اتنا کہنا چاہیں گے کہ وہ قوتیں جو مائنس الطاف فارمولے کی حامی ہیں چاہتی ہیں ایم کیوایم کو الطاف حسین سے علیحدہ کرکے ایک ناکام سیاسی جماعت کے طور پر باور کرایا جائے اور غریب و متوسط طبقے سے اُٹھنے والی اِس واحد آواز کوہمیشہ کے لئے خاموش کردیا جائے۔لہذا اسکے لئے عوامی سطح پر ایک قسم کی مہم سازی کی جارہی ہے
جس میں یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش ہے کہ پاکستان میں اردو بولنے والے طبقے کو الطاف حسین نے اپنی جماعت کے ذریعے ہائی جیک کیا ہوا ہے جوکہ اس طبقے کی ایک جذباتی رگ کو اپنے ہاتھ میں دبا کرپوری قوم کا مالکِ کل بنا بیٹھا ہے۔ لہذااِس طبقے کو اِس مالکِ کل سے آزادی دلائی جائے اور مائنس الطاف فارمولے کے تحت ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا جائے۔لہذاایم کیوایم کو الطاف حسین کے نظریات سے پاک کرکے ایک اسٹیبلشمنٹ کی جماعت کی حیثیت سے سامنے لایا جائے جس میں چندایسے رہنمائوںکو شامل رکھا جائے جو اب بیوروکریسی کے رنگ میںرنگے جا چکے ہیںجن سے اب اشرافیہ کو کوئی خطرہ نہیں،وہ لوگ جو اپنی اصل پہچان اپنا اصل مقصد کھو چکے ہیں جن کا حصول بھی اب ایک وڈیرے جاگیردار اورسرمایہ دار کی طرح صرف پیسہ کمانا اور اپنی جاگیریں بنانا رہے گیا ہے۔
قارئین اِن قوتوں کا حاصل چاہے جو بھی ہولیکن اگر ہم ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ پوری ایمانداری کے ساتھ پیش کریں تو یہ بات کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ جو کوئی بھی قوت اس سوچ پر عمل پیراں ہے وہ کسی طور بھی ملک کی خیر خواں نہیں ہوسکتی اِس طرح کی کوئی بھی سوچ ملکی مفاد میں بالکل نہیں ہے بلکہ یہ وہ ملک دشمن قوتیں ہیں جو پاکستان کی سالمیت کے لئے ہمیشہ خطرہ رہی ہیں اور ملک میں بدامنی انتشار کی صورتحال کو قائم رکھنا چاہتی ہیں ۔ فرض کرلیجئے کہ مائنس الطاف فارمولے پر عمل ہوجاتا ہے الطاف حسین کو ایم کیو ایم کی قیادت سے علیحدہ کردیا جاتا ہے
MQM Vs PTI
جو کہ ایم کیو ایم مخالف قوتوں کے لئے ہو سکتا ہے وقتی طور پر خوش آئند اور دل لبھا دینے والی بات ہو لیکن اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے اِس طرف توجہ دینے کی اَشد ضرورت ہے ایم کیو ایم کو الطاف حسین کے نظریات سے علیحدہ کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو کیا لگتا ہے وہ اردو بولنے والوں کے لیے ایک ایسی قیادت کا انتظام کر پائیگی جواردو بولنے والی پوری قوم کو ایک لڑی میں پُرو کر اُس کی رہنمائی کرسکے..؟کیا اسٹیبلشمنٹ اور الطاف مخالف قوتیں یہ سمجھتی ہیںکہ اردو بولنے والا طبقہ الطاف حسین کے علاوہ کسی اور کی قیادت میں اِس طرح متحد ہوکر منزل نہیں رہنما چاہیئے کا نعرہ بلند کرسکتاہے .. ؟
وہ لوگ جو مائنس الطاف ایم کیو ایم کو چلانے کاخواب دیکھ رہے ہیں کیا اُنکے پاس ایسا کوئی نظریہ ہے جو ایک پڑھی لکھی قوم کے آگے پیش کریں اوروہ آنکھ بند کرکے اُسے قبول کرلے، قارئین کویادہوگااِس طرح کی کوششیںماضی میںبھی کی جاتی رہی ہیں ،اس طرح کی خام خیالی میں مبتلالوگ کیا آج گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں ہیںماضی کو کھنگالیں اور بتائیں قوم نے اُس وقت کس کا ساتھ دیااور آج بھی این اے246 میں قوم نے کس کی آواز پر لبیک کہا ۔بلکہ اِس ضمنی الیکشن سے ایک بات اور عیاں ہوگئی کہ جو جماعتیں ایم کیو ایم کو دھاندلی کی پیداوار بتلاتی تھیںقبضہ مافیا کا گروہ گردانتی تھیں ایم کیوایم کا ووٹ بینک جعلی قرار دیتی تھیںاب اُنکے خودکے لئے بہت سے سوالوں نے جنم لے لیا ہے۔
Rangers
انتہائی سخت سکیورٹی رینجرز کی مکمل نگرانی تمام پولنگ اسٹیشنوں پر CCTV کیمروں کی مدد سے ووٹنگ اور ووٹرز پر نظر رکھنے کے باوجود ایم کیوایم نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ ہم سمجھتے ہیں 23 اپریل2015 ئ کو ایم کیوایم اِن تمام الزامات سے بری الزماںٹھہری۔ اور اب کوئی سیاسی و مذہبی جماعت یہ کہنے کا حق نہیں رکھتی کہ ایم کیوایم کا ووٹ بینک جعلی ہے اور وہ دھاندلی سے الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ایم کیوایم کا این اے 246 کے ضمنی الیکشن میںبھاری اکثریت سے جیتناکراچی کی عوام کا ایم کیو ایم اور اُسکی قیادت پر اعتماد کا اظہارہی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ویسے بھی پاکستان کی سالمیت پر اُمٹتے خطرات کے پیشِ نظر الطاف حسین کاکردار پاکستان کی سیاست میں نہایت ضروری ہے۔سندھ سمیت پورے پاکستان میں وہ عناصرجوایم کیو ایم اور الطاف حسین کی مخالفت میں لب کشائی کرتے رہے ہیں وہ الطاف حسین کے شکر گزار رہیں کہ سندھ میں اردو بولنے والے طبقے کو ایک لڑی میں پرو کرصبروتحمل اور برداشت کا درس دے رکھا ہے ورنہ صوبائی اور شہری (بلدیاتی) سطح پراِس طبقے کیساتھ جو ناانصافیاں کی جاتی رہی ہیں وہ ظلم و ذیادتی مائنس الطاف حسین کے بعد شایدیہ طبقہ برداشت نہ کرسکے ، بہت سی چیزوں کی سلامتی و بقا کی ضامن صرف و صرف الطاف حسین کی بے لوث قیادت ہی ہے جس کا جاری و ساری رہنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔