کچھ دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ جیو اور جنگ کی لڑائی میں خان صاحب کو نہیں ان کی پارٹی کے لوگوں کو سامنے آنا چاہئے پہلی بات تو یہ ہے کہ پارٹی کی قیادت میں شامل ہر فرد عمران خان کی سوچ کے ساتھ ہے اور میں نہیں سمجھتا کسی نے بھی اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کیا ہو۔اس ایشو کو سمجھنے کی ضرورت ہے جیو اور جنگ کوئی ایک اشاعتی یا صحافتی ادارہ نہیں ہے یہ وہ کمپنی ہے جس نے پاکستان توڑنے کی سیپاری پکڑ رکھی ہے۔اس نے پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کئے پاکستان دشمن قوتوں سے ملاپ کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے۔
اس کے ہاتھ لمبے ہیں۔میر خلیل سے میر شکیل تک ملک سے بے وفائی کی لمبی کہانیاں ہیں۔میر صحافت کا پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انٹر ویو آج کل سوشل میڈیا پر عام ہے۔جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے شاطر میر کی خوب کلاس لی تھی۔ایک عینی شاہد نے میر خلیل الرحمان کو مولانا کوثر نیازی کے قدموں میں بیٹھے میر خلیل کی کہانی بیان کی تو اس قد آور کے بونے پن کا پتہ چلا۔جنگ اخبار کے بانی اس وقت اقتتدار کے ایوانوں میں جیبیں گرم کرنے کے لئے گھوما کرتے تھے اس لئے وہ حکومت کے محتاج بن کر رہ گئے۔لیکن آج یہ ادارہ اور اس کی ضروریات پاکستان سے باہر بیٹھی ہوئی طاقتیں کرتی ہیں۔اس کا جواب تحریک انصاف کی جوانمرد شیریں مزاری نے دے دیا ہے۔
میرا خیال ہے جیو اور مشروم کی طرح اگنے والے ٹی وی چینیلز کوئی جنرل مشرف کی ذاتی مہربانیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ میں عالم عرب اور دنیا کہ دیگر ممالک میں ایک ہی وقت میں سرکاری چینیلوں سے ہٹ کر بننے والے ادارے دیکھتا ہوں اوائل ٢٠٠٠ میں سعودی عرب جیسے ملک میں صرف دو چینیل تھے مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک جال پھیل گیا جس نے عرب کے ا سلامی بند معاشرے کو توڑ کر رکھ دیا۔ایم بیء سی العریبیہ اور بے شمار چینیل سامنے آ گئے اور ان چینیلوں کی ظاہری آن بان جیو، الجزیرہ سے ہی ملتی جلتی ہے۔ذرائع ابلاغ کے ٩٩ فی صد یہودیوں کے پاس ہیں اور وہی ان کی چابی گھماتے رہتے ہیں۔
آپ غور سے دیکھیں ان کا ہر پروگرام آپ کو اسلامی تعلیمات سے دور لے جائے گا۔میں نے جیو کا مکمل بائیکاٹ کیا ہے مگر آج حسن نثار کا پروگرام میرے مطابق دیکھا اس میں وہ مارننگ شوز سے لے کر رات گئے تک کے پروگراموں کی بابت صفائیاں پیش کر رہے تھے۔نوکر کی زندگی بھی کیا زندگی ہے میں اس بکائو ذہانت پر ماتم کرنا چاہوں گا وہ خبرناک کے آصف اقبال کی بابت بتا رہا تھا کہ سوائے مزاح وہاں کیا ہوتا ہے جناب حسن نثار وہاں پاکستانیت کی توہین کی جاتی ہے سیاسی لیڈروں کو نکو بنا کر پیش کیا جاتا ہے بھانڈوں اور میراثیوں سے قومی لیڈروں کی کردار کشی ہوتی ہے وہ مثالیں دیتا ہے چندر گپت موریا کہ کبھی محمود غزنوی کی بات نہیں کرتا۔جرگے کا سلیم صافی تیرا کھانواں میں تیرے گیت گیت گانواں کرتا ہے ١٧ مئی کے کالم میں وہ لکھتا ہے کہ گجر کو قابو کرنا ہو تو اس کے کٹے کو قابو کیا جاتا ہے۔
Pakistan
یہ پاکستان کے سب سے بڑے قبیلے کی توہین نہیں ہے۔کٹے اگر ان جیسے نسوانی کرداروں کے قابو میں آ جائیں تو سانڈ کہاں سے بنیں گے ۔پاکستان ان سانڈوں کی سر زمین ہے اسے میر شکیل الرحمن جیسے متوسط الجنس لوگ نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔جیو صبح کی نشریات سے لے کر کامران خان تک پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرتا ہے۔اپنے تئیں وہ پاکستان کو مار کر سوتا ہے مگر انجیر کے درخت کی طرح پاکستان پھر سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ظالم کو علم ہی نہیں کہ ٢٧ویں شب کو بننے والے پاکستان کا اللہ نگہبان ہے۔لگتا یہ کہ جیو اور جنگ کی ساری ٹیم اس ڈوبتے شپ کو بچانے نکل پڑی ہے۔ انصار عباسی سے لے کر حسن نثار سب میں تیرے گیت گانواں پے لگے ہوئے ہیں۔ایک اور درکانو سا صحافی ہے عمر چیمہ کے نام کو بٹہ لگائے اپنے ٹویٹس سے چائے کے پیالے میں طوفان اٹھا رہا ہے مجھے سمجھ نہیں عمران خان کو کیا آن پڑی ہے جو اس کا جواب دے رہے ہیں۔
تحریک انصاف میں اللہ کے فضل و کرم سے جواب دینے والے بہت ہیں سوشل میڈیا پر اس کے ساتھ جو کچھ ہوا شاید خان کو علم نہیں۔حیرانگی یہ ہے کہ اس دن حسن نثار مارننگ شوز سے لے کر کامران خان کی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ڈان انگریزی فلموں کا کردار جو جیمز بانڈ سیریز میں آیا کرتا تھا وہ اپنی گود میں ایک بلی رکھا کرتا اور لوگوں کو اس کی بلی نظر آتی مگر وہ خود دکھائی نہ دیتا ان سب ٹیں ٹیں قلمقار مزدوروں کے پیچھے وہی ڈان ہے جس کا نام میر شکیل الرحمن ہے۔دیکھئے وہ جو طالبان کی صلح کرایا کرتا تھا میر شکیل سے ملنے دبئی چلا گیا۔پرویز رشید کی ہمراہی میں اسے یقین دلانے یہ لوگ دبئی یاترا کرتے ہیں۔رات برادر ظفر علی شاہ بڑے پیار سے کہہ رہے تھے کہ دیکھیں جی عمران خان کو مزیب نہیں دیتا کہ وہ جیو اور جنگ کے مقابلے پر اتر آئیں۔جناب شفقت محمود نے انہیں مناسب جواب دیا مگر میرا سوال ان سے یہ ضرور ہوتا کہ اگر معاملہ میر شکیل کا اتنا ہی چھوٹا تھا تو حکومت پاکستان کے دو بھولو پہلوان اس کو کیا تازہ آم دینے گئے تھے؟
جیو اور جنگ سے معاملات اب بہت آ گے نکل چکے ہیں۔عمران خان نے ہمیشہ بھاری پتھر اٹھائے ہیں۔٢٠٠٧ میں اس نے حکومت برطانیہ کو عمران فاروق کے قتل کے ثبوت مہیا کئے اور اب کراچی کے ڈان کو اس ملک میں آنے کے لئے اس کی شہریت کے لئے بھیک مانگنی پڑ رہی ہے۔وہ پاکستان جس کو توڑنے کے لئے بھائی نے ہندوستان میں کھڑے ہو کر کہا کہ ہمارے بزرگوں نے جو غلطی کی ہے کل ہمارے اوپر پاکستان کی فوج یا ریاستی ادارے ظلم کرتے ہیں تو ہمارا ساتھ دے۔بھائی کو بہتر ہے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نریندر مودی کے ہندوستان میں جانا چاہئے وہ پاکستان سے کیا مانگتا ہے جہاں ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں جہاں ظلم ہے جبر ہے زیادتی ہے۔
اسے کہتے ہیں عمران خان چھوڑے گا نہیں مارے گا چن چن کے۔میر شکیل الرحمن کے اس ڈوبتے شپ سے اب چوہے بھاگ رہے ہیں۔یہ جو بڑے پیار سے عمران خان کو مشورے دیتے ہیں چھوڑیں جی جیو اور جنگ پر ہاتھ ڈھیلا کریں وہ لوگ در اصل اس سانپ کو بل میں گھس جانے کی اجازت دے رہے ہیں جس نے پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جس نے پاک فوج کو بدنام کیا اور جس نے کوشش کی کہ اسلام کے نام پر بنے ملک کا سوا ستیاناس کر دے۔یہاں میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کی جیو اور جنگ کے خلاف اس جنگ میں عمران خان جیسا تھم میدان میں آیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اے آر وائی یا کوئی دوسرا چینیل اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی ریٹنگ بنائے۔تحریک انصاف کسی صورت بھی ایک کو چوڑ دوسرے کو پکڑ پالیسی پر عمل نہیں کر رہی ہم مبشر لقمان کے کردار سے بھی واقف ہیں۔ہمیں طاقت کی باگ دوڑ سیاست دانوں کے ہاتھ رکھنا ہے۔
فرض کریں اگر جیو اور جنگ پر پابندی لگتی ہے تو کیا اے آر وائی اپنے اصل ہتھیار لے کر ثامنے نہیں آ جائے گا۔ہمیں بہت بڑی مثال کو سامنے رکھنا ہے پاکستان نے امریکہ سے مل کر روس کے ٹکڑے تو کر دیے مگر پوری دنیا پر جگا مسلظ کر دیا۔صحافت میں گند کو صاف کرنا ہوگا۔شومئی قسمت کبھی صحافی لیڈر کے ساتھ تصویر بنا کر فریم میں لگایا کرتے تھے اب وہ لیڈروں کو گریبان سے پکڑتے ہیں۔یہ جو پینٹوں کے نیچے کھیڑیاں پہن کر الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں کبھی معیار سے انہیں پرکھا گیا تو کیا نکلیں گے۔میرا بس چلے تو کسی کو صحافی مانوں ہی نہیں جب تک وہ جرنلزم کی ڈگری اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ہم نے جعلی ڈاکٹروں کو تو پابند کیا مگر اس طرف کوئی قانون سازی نہ کر سکے۔اخلاق نامی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔کرن تھاپر نے ایک بار لالو پرساد سے کہا کہ آپ ایک سکینڈل میں مبتلا ہیں بہتر ہے۔
آپ مستعفی ہو جائیں تو انہوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ یہ جو سو روپے کی ٹائی اور ہزار کا سوٹ پہن کر ٹھنڈے کمرے میں قلم میں دبائے کہہ رہے ہو نہ چار لاکھ گھروں کے دروازوں پر جا کر ووٹ مانگ کر منتحب ہو کر آئو تو بات بنے۔لیڈر قوم کا راہنما ہے اور صحافی معاشرے کی آنکھ۔جس لمحے یہ آنکھ ریفری بنتی ہے اسی وقت ظلم ہوتا ہے۔ہماری قوم کی قسمت میں میر جعفروں ،عمر چیموں اور میر شکیلوں کی خرمستیاں ہی کیوں لکھی گئی ہیں۔گٹر سے نکلے ان ننگ دین و ملت صحافیوں کے علاوہ اسی ملک میں مجیب شامی،مجید نظامی،سید صلاح الدین،سعود ساحر،طلعت حسین،اطہر ہاشمی،نصیر ہاشمی بھی تو رہتے ہیں۔کہاں ہیں وہ جو حرمت قلم کو اپنی ماں بہنوں کی عصمتوں کے برابر تولتے ہیں۔