کوئٹہ (جیوڈیسک) ایک الزام میں ایک سے زائد مقدمات درج کرنا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، بلوچستان ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر میر شکیل الرحمان کے خلاف ایک کے سوا تمام مقدمات کو خارج کردیا ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس ہاشم خان کاکڑ پر مشتمل بینچ نےملک بھر میں درج کیے جانے والے مقدمات کے خلاف انڈیپنڈنٹ میڈیا کارپوریشن اور میر شکیل الرحمٰن کی جانب سے دائر درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزار کے خلاف ایک ہی الزام میں ملک کے مختلف شہروں میں 75 مقدمات درج کر دیے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں 4 مقدمات درج ہیں حالانکہ قانون واضح ہے کہ کسی ایک الزام میں ایک سے زائد بارمقدمہ نہیں چلایاجا سکتا، لہٰذا استدعا ہے کہ ایک سے زائد درج مقدمات کو کالعدم قرار دیا جائے۔
پیر کو عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی الزام میں درخواست گزار کے خلاف ملک بھر میں 75 مقدمات درج کرنا آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اگر ایک جرم میں کسی فرد کو بار بار سزا دینے کی کوشش کی گئی تو یہ عدالتی ضمیر کے لیے دھچکا ہوگا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ درخوست گزار کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایک الزام میں ملک کے مختلف شہروں کی عدالتوں میں ضمانتیں کروائے، تفتیش میں شامل ہو اور اپنا دفاع کر سکے۔ ملک بھر میں درج کیے گئے مقدمات اورعدالتوں کے روبرو پیش کیے گئے چالان قانون کے طریقہ کار کے ناجائز استعمال کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں۔ کسی کے خلاف بھی اس طرح کی مقدمہ بازی ختم ہونی چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ تمام ایف آئی آر ایک ہی واقعے کی بنیاد پر انہی افراد کے خلاف درج کی گئیں اور مختلف حدود اور دائرہ کار رکھنے والی عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 4 اور 13 جبکہ قانون کی متعدد دفعات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں درخواست گزار کی استدعا منظور کرتے ہوئے بلوچستان میں درج ایک کے سوا تمام مقدمات خارج کردیے۔ اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ میں اس معاملے میں دائر کی گئی دو پٹیشنوں پر معزز عدالت 7 نومبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کرچکی ہے جس کا اعلان جلد متوقع ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اسی سلسلے میں ایک پٹیشن زیر سماعت ہے اور اس کا فیصلہ بھی جلد متوقع ہے۔