خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس جامع المعجزات ہے، پہلے انبیاء علیہم السلام کو جو معجزے عطاء کئے گئے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک میں جمع ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بال بال معجزہ قرار پایا۔ آپۖ کے معجزات میں سے کئی جمادات نباتات اور حیوانات سے متعلق ہیں، کنکریاں آپۖ کے ہاتھ میں تسبیح کرتیں، شجر و حجرآپۖ پر سلام بھیجتے اور سجدہ کرتے، ہرنیاں آپۖ کو ضامن تسلیم کرتیں، اونٹ آپۖ سے افسانہ غم بیان کرتے، احادیث و سیرت مبارکہ کی کتب میںایسے متعدد خوش نصیب درختوں کا ذکر بھی ملتا ہے جنہوںنے آپ ۖ کی تعظیم و تکریم کی اور مقام نبوت کو پہچانا، کئی درخت آپۖ کی پکار پر زمین کو چیرتے ہوئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اقرار نبوت کی سعادت حاصل کی۔ تمام انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے عملی معجزات عطا فرمائے ، لیکن سرور کائناتۖ کو ہزاروں کی تعداد عملی معجزوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا علمی معجزہ قرآن پاک عطاء فرمایا ۔زندہ اور ہمیشہ باقی رہنے والا یہ عظیم الشان معجزہ ہے جو اپنی معجزانہ حیثیت اور شان کے ساتھ آج بھی امت کے پاس جوں کا توں موجود ہے۔ لفظ معجزہ عجز سے نکلا جس کے معنی کوئی ایسی چیز جس سے عقل عاجز آ جائے، کوئی ایسا واقعہ جو معمول سے بالکل منفرد ہو، جو انسان کو حیرت میں مبتلاکردے، بلاشبہ انبیاء کا معجزہ قدرت الٰہی کا کرشمہ ہوتا ہے۔
ایک دفعہ مکہ کی ویران گھاٹی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا، رکانہ بن عبد یزید ( جو کہ قریش کا ایک بہت طاقتور پہلوان تھا اور قریش میں اس سے بڑا کوئی پہلوان نہ تھا) سے سامنا ہوگیا آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی اس نے مطالبہ کیا کہ اگر آپ مجھے کشتی میں ہرا دیں تو میں اسلام قبول کر لونگا۔آپ نے اسے ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ کشتی میں پچھاڑ دیا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ آپ نے مجھے پچھاڑ دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے اس سے بھی عجیب و غریب چیز پیش کرونگا مگر شرط یہ ہے کہ تم اللہ سے ڈرو،اپنی روش بدلو اور میری پیروی اختیار کرو۔اس نے پوچھا کہ آپ کیا دکھانا چاہتے ہیں ؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس درخت کو اپنے پاس بلاؤنگا اس نے کہا کہ بلاؤ۔آپۖ نے درخت کو حکم دیا اور وہ درخت اپنی جگہ سے چل کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اس کے بعد آپ نے اسے حکم دیا کہ واپس جائو تو وہ واپس اپنی جگہ چلا گیا۔ اسی طرح عکا شہ بن محصن معرکہ بدر میں بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے کہ ان کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایک کھجور کی چھڑی عطا فرمائی اور فرمایا ” عکاشہ جا دشمنوں سے لڑ” حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ نے وہ لکڑی پکڑ کر جھٹکا دیا تو وہ ایک لمبی تلوار بن گئی جس کی دہار تیز اور چمک دار تھی اور اس میں مضبوطی تھی،حضرت عکاشہ نے یہ تلوار بدر کے میدان میں خوب استعمال کی،اس تلوار کا نام العون تھا۔حضرت عکاشہ کے پاس یہ تلوار ایک مدت تک رہی اور وہ اس کے جوہر جہاد میں دکھاتے رہے۔
اسی طرح حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ میدان احد میں بڑی بے جگری سے لڑے اور اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے،میدان احد میں حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ زخمی ہوگئی اور اس کی پتلی نکل کر ان کے گال پر لٹکنے لگی حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے وہ پتلی واپس آنکھ میں رکھ دی تو وہ آنکھ بالکل ٹھیک ہوگئی۔یہ آنکھ دوسری آنکھ سے بھی ذیادہ تیز نگاہ اور بہتر تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں عقبہ بن ابی معیطر کی بکریاں چرایا کرتا تھا ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا آپ نے مجھ سے پوچھا کہ ” اے لڑکے کیا تیرے پاس دودھ ہے؟” میں نے عرض کیا کہ ہاں دودھ ہے مگر وہ کسی کی امانت ہے میں دینے کا مجاز نہیں ہوں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اچھا تمہارے پاس کوئی ایسی بکری ہے جو کبھی حاملہ نہ ہوئی ہو اور نہ شیر دار ہو، میں نے عرض کیا کہ ہاں ایسی بکری تو ہے پھر میں نے وہ بکری پیش خدمت کردی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تھوڑی دیر سہلاتے رہے اس کے تھنوں میں دودھ اتر آیا۔آپ نے ایک برتن میں دودھ بھر کر وہ خود بھی پیا اور اپنے ساتھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی پلایا، اس کے بعد بکری کے تھن پھر پہلے جیسے ہوگئے۔
ایک بار ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے حق میں بد دعا کی کہ ” اے اللہ اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو اس پر مسلط کردے ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بد دعا ایسے پوری ہوئی کہ کچھ عرصے کے بعد عتیبہ اپنے باپ ابو لہب کے ساتھ شام کے تجارتی سفرپر روانہ ہوا ایک جگہ پڑاؤ کیا وہاں ایک گرجا تھا وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہاں تو شیر ایسے گھومتے ہیں جیسے اور عام علاقوں میں بکریاں گھومتی ہیں،ابو لہب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بد دعا یاد تھی اس نے دیگر قافلے والوں سے کہا کہ اس نے ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ) میرے بیٹے کو بد دعا دی ہے جس سے میں سخت فکر مند ہوں پس تم سارا سامان سا گرجا کے صحن میں جمع کردو اور اسکے اوپر میرے بیٹے کا بستر لگا دو پھر اس سامان کے گرد تم سب سوجاؤ” قافلے والوں نے ایسا ہی کیا رات جب سب سوگئے تو جنگل سے شیر آیا تمام قافلے کے لوگوں کو سونگھا مگر کسی کو کچھ نہیں کہا وہ تو گستاخ رسول کی تلاش میں تھا۔شیر نے پیچھے ہٹ کر ایک اونچی چھلانگ لگائی سامان کے بلند ڈھیر پر چڑھ کر اس نے عتیبہ کے چہرے کو سونگھا اور اسے چیر پھاڑ دیا اور اس کا سر کھول دیا۔ اس واقعے پر ابو لہب کا بڑا برا حال تھا اور وہ کہے جارہا تھا میں جانتا تھا کہ میرا بیٹا محمد کی بد دعا سے کبھی نہیں بچ سکے گا ”۔ فتح خیبر کے بعد جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ اطمنان سے بیٹھے تو ایک یہودیہ زینب بن الحارث نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی ناپاک سازش کی اور ایک بکری کا گوشت زہر آلود کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کیا۔اس عورت نے گوشت بھیجنے سے پہلے معلوم کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون سے حصے کا گوشت زیادہ مرغوب ہے،بتایا گیا کہ دستی کا گوشت زیادہ مرغوب ہے تو اس نے دستی کو بہت زیادہ مسموم کیا اور اس کے بعد وہ گوشت اچھی طرح بھون کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کردیا آپ نے دستی کا گوشت اٹھایا،آپ نے ایک نوالہ منہ میں تو لیا مگر اسے نگلا نہیں بلکہ اسے واپس اگل دیا اور فرمایا کہ اس بکری کی ہڈی مجھے خبر دے رہی ہے کہ اسے زہر آلود کیا گیا ہے۔
اس عورت کو بلایا گیا اس نے اقرار کیا کہ اس نے ایسا ہی کیا تھا جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس نے جواب دیا کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری قوم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ آپ کے سامنے ہے میرا ارادہ تھا کہ آپ کو اگر آپ عام بادشاہوں کی طرح ہونگے تو اس زہر سے نعوذ باللہ ہلاک ہوجائیں گے اور میںراحت پاؤنگی اور اگر آپ واقعی نبی ہیں تو اللہ آپ کو اس کی خبر دے گا ” اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس وقت تو معاف کردیا مگر بعد میں اس زہر کے اثر سے حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قصاص میں اس عورت کو قتل کردیا۔ غزوہ احزاب جسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں، اس جنگ سے قبل جب خندق کھودی جارہی تھی توایک بہت بڑا اور سخت پتھر حائل ہوگیا، بہت زور لگایا گیا لیکن نہ ٹوٹا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور کدال سے ایک ضرب لگائی، چنگاریاں نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روم فتح ہوگیا، پھر دوسری ضرب لگائی چنگاریاں نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایران فتح ہوگیا پھر تیسری ضرب لگائی اور چنگاریاں نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خدا کی قسم بحرین کے سرخ محلات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔
بعد میں آنے والے دنوں میں روم اور ایران تو بہت جلد فتح ہوگئے اور روم کے بھی متعدد علاقے زیر اسلام آگئے صرف قسطنطنیہ کا شہر باقی رہ گیا۔ اس شہر کو فتح کرنے کے لیے اور نبی علیہ السلام کی پیشین گوئی پوری کرنے کے لیے کم و بیش چودہ بادشاہوں نے لشکر کشی کی اور آٹھ سو سال بعد قسطنطنیہ کا یہ شہر بھی اسلام کے زیر نگیں آ گیا اور سچے نبی کی پیشین گوئی پوری ہو گئی۔ اسی طرح غزوہ خندق کے موقع پر جب سب نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے تو ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر گئے اور بکری کا بچہ ذبح کیا اور ساتھ ہی گھر والوں کو میسر آٹے سے روٹیاں پکانے کا کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اور کان مبارک میں عرض کی کہ سات آٹھ افراد کا کھانا تیار ہے تشریف لے آئیے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ساٹھ ستر افراد کے ساتھ پہنچ گئے۔ اس صحابی کے چہرے پر پریشانی کے آثار ہویدا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھالی ہٹائے بغیرسالن نکالتے رہو اور اوپر سے رومال ہٹائے بغیر روٹیاں نکالتے رہو اسی طرح اس سات آٹھ افراد کے کھانے کو ساٹھ ستر افراد نے سیر ہو کرتناول کیا اور مہمانوں کے چلے جانے پر پہلے جتنا کھانا پھر بھی باقی دھرا تھا۔ جانوروں کی زبان سمجھ لینا بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک معجزہ تھا، جب کچھ لوگ شرف ملاقات کے لئے حاضر خدمت ہوئے تو انکے اونٹ نے اپنا سر لمبا کر کے تو قدمین شریفین پر رکھ دیا اور اپنی زبان میں ڈکارا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اس سے کام بہت لیتے ہو کھانے کو کم دیتے ہو اور تشدد بھی کرتے ہو۔ وہ لوگ کم و بیش دوماہ بعد اس اونٹ کو پھر لائے اور خدمت اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش کرکے عرض کی اس دوران ہم نے اس سے کوئی کام نہیں لیا اور صرف کھلایا پلایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی صحت دیکھ لیں اور اجازت ہو تو ہم اس سے کام لینا شروع کر دیں۔ اس طرح ایک صحابی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے لکڑی کا منبر بنا کر مسجد نبوی میں رکھ دیا۔آپۖ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے اس پر رونق افروز ہوئے تو خشک درخت کا بنا ہوا وہ ستون، جس سے ٹیک لگا کر آپۖ اس منبر سے پہلے خطبہ ارشاد فرماتے تھے، وہ بلک بلک کر رونے لگا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب اس ستون کی بے قراری ملاحظہ فرمائی تو خطبہ موخر فرما کر اس ستون کے پاس آئے اور اسے سینے سے لپٹا لیا۔ پھر صحابہ کرام سے فرمایا ”یہ میری جدائی میں گریہ کناں ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔
اگر میں اسے سینے سے لپٹا کر دلاسا نہ دیتا تو یہ قیامت تک اسی طرح میری جدائی کے غم میں روتا رہتا۔” حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لکڑی کے اس تنے سے پوچھا ”کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے واپس اسی باغ میں اگا دوں جہاں سے تجھے کاٹا گیا ہے، وہاں تجھے ہرا بھرا کر دیا جائے، یہاں تک کہ قیامت تک مشرق و مغرب سے آنے والے اللہ کے دوست حجاج کرام تیرا پھل کھائیں؟” جواب میں اس نے عرض کیا ”اے پیکر رحمت میں توآپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لمحاتی جدائی برداشت نہ کر سکا، قیامت تک کی تنہائی کیسے برداشت کروں گا؟” آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا ”کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے جنت میں سرسبزوشاداب درخت بنا کر اگادوں اور تو جنت کی بہاروں کے مزے لوٹے؟” تو اس ستون حنانہ نے یہ انعام قبول کر لیا۔ چنانچہ اسے منبر اقدس کے قریب زمین میں دفن کر دیا گیا۔ تدفین کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ”اس نے دارفنا پر داربقا ء کو ترجیح دی ہے ۔’ ‘ (بخاری شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ابوہریرہ کی ماں کیلئے ہدایت کی دعا فرمائیں ، آپۖ نے دعا فرمائی، حضرت ابوہریرہ گھر تشریف لے گئے تو حضرت ابوہریرہ کی والدہ اسلام لانے کیلئے غسل کر رہی تھی، غسل کے بعد کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئیں۔سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے ، ایک صحابی نے عرض کیا مال ہلاک ہوگیا ہے اہل وعیال بھوکے ہیں،بارش کیلئے دعا فرمائیں۔ اس وقت بادل بالکل نہ تھا آپۖ نے دونوں ہاتھ مبارک بلند کرکے دعا فرمائی۔ ابھی آپۖ نے دعا سے ہاتھ نیچے نہیں فرمائے تھے پہاڑ کی طرح بادل آگئے اور آپۖ ابھی منبر سے نیچے نہ آئے تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور آٹھ دن مسلسل برستی رہی۔ حتیٰ کہ دوسرے جمعہ آپ ۖ کی دعا سے ہی بارش رکی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں چند کھجوریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لایا اور برکت کی دعا کیلئے عرض کی،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انکو انے ہاتھ میں لیکر دعا فرمائی اور فرمایا کہ ان کو برتن میں ڈال لینا جب ضرورت ہو تو ہاتھ ڈال کر نکالتے رہنا برتن الٹا کرکے خالی نہ کرنا۔حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں ان کھجوروں میں بہت برکت ہوئی یہاں تک کہ حضرت عثمان کی شہادت کے دن یہ برتن گر کر گم ہو گیا مگر کھجوریں ختم نہ ہوئی۔ ہجرت کے سفر میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام معبد کی کمزور بکری پر ہاتھ پھیرا اور بسم اللہ پڑھا اور ام معبد کے حق میں دعا فرمائی۔آپۖ نے ایسے برتن میں دودھ دوہا جو ایک قافلہ کو سیراب کر لے وہ برتن بھرگیا،اسی برتن میں آپۖ نے دوبار دوہا او دوسری مرتبہ بھی بھر گیا۔
ایک مرتبہ دوران سفر ایک دیہاتی کو سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی تو اس نے عرض کیا کہ اس کلمہ کی کون گواہی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ کیکر کا درخت اس کلمہ کی گواہی دینے کیلئے ہے، پھر آپۖ نے اس درخت کو بلایا تو اس کیکر کے درخت نے حاضر ہو کر تین بار کلمہ پڑھا ۔ اسی طرح ایک دیہاتی نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ کس دلیل سے آپ کی نبوت کو سچ جانوں،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھجور کے ایک خوشہ کو نیچے بلایا اور تووہ نیچے اتر آیا اور آپ ۖ کی نبوت کی گواہی دی تو اس کے بعد آپ ۖنے فرمایا واپس چلا جا ، تو وہ خوشہ کھجور اپنی جگہ واپس چلا گیا۔ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار معجزات ہیں تمام معجزات کو ان سطور میں بیان کرنا ممکن نہیں، واقعہ معراج ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو کہ خود ایک علیحدہ باب ہے ۔بارگاہ الٰہی میں دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں اپنے احکامات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع اختیار کرنے والا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا عاشق بنائے، آمین۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل :ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033