تحریر : عبدالجبار خان دریشک ہم بھی کتنے عجیب ہیں ہمیں ماحولیاتی آلودگی سے گھٹن محسوس ہوتی ہے.ہم اپنے کسی بھی شہر کو دیکھیں آلود ہی نظر آتا گلیوں میں بکھرا کچرا سٹرکوں پر اڑتے کاغذ اور شاپر ہمیں بہت برے لگتے ہیں.ہمیں یہ بھی برا لگتا کہ سامنے والی کی گاڑی سے اتنا دھواں کیوں نکل رہا ہے،اور ہمیں یہ بھی بھر لگتا ہے کہ صفائی کا عملہ ہر روز ہماری گلی کو کیوں صاف نہیں کرتے۔ یہ تو بات صرف ماحولیاتی آلودگی کی ہو گئی کہ فلاں شخص ،فلاں محلے والے اور فلاں شہر والے کتنے گندے ہیں صفائی کا ذرا بھی خیال نہیں رکھتے جس سے ہمیں اتنی پریشانی اور تکلیف ہوتی ہے اور ہو بھی کیوں نا۔ ہمیں پورے دن میں کتنی تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں.شاید کسی اور مخلوق کو ہوتیں تو کب کی ختم ہو چکی ہوتی پر ہم انسان ہیں ہمارے اندر برداشت کی قوت ہے اس لئے زندہ ہیں۔
یہ حقیقت ہے ہم برداشت کی قوت رکھتے ہیں لیکن صرف منفی سوچوں کی،دوسروں کی برائیوں کی، ان برائیوں کو پالنے اور ان کو پرورش دینے کی، ہم بہت حساس ہیں ہمیں بیرونی آلودگی فوراً محسوس ہو جاتی ہے.ہمارے خواص ہمیں احساس دلاتے ہیں سامنے کچرا ہے تو کہیں بدبو ہے،تو کہیں سے زور دار آواز جو ہمارے کانوں کو متاثر کر رہی ہے،پر ہم وہ آئینہ نہیں دیکھتے جس میں ہم اپنے آپ کو دیکھیں پائیں۔ جس میں ہمارا اصلی چہرہ اور ہمارا ضمیر نظر آئے۔ہماری سوچ و اخلاقیات کے ماحول کو متاثر کرنے میں آئینہ کا بھی بہت بڑا کردار ہے جو ہمیں ہمارا عکس اجلا اور خوبصورت تو دیکھتا ہے لیکن ہمارے اندر پھیلی آلودگی کو نہیں دیکھتا،کہیں ایسا تو نہیں یہ نقلی آئینے صرف جسم کے لئے ہیں روح کے لئے نہیں.
ہم کہتے ہیں یورپ میں تو شہر صاف ہیں ہمارے کیوں نہیں،ان کی سٹرکیں اجلی ہیں ہماری کیوں نہیں،وہاں امن ہے یہاں کیوں نہیں،وہاں ہر چیز ترتیب سے ہے یہاں کیوں نہیں،جناب یہاں کیسے ہو. میں گلی کی نکڑ پر لگے کچرا دان تک جانے کی زحمت نہیں کرتا اور کچرے کو ہمسائے کے دروازے کے ساتھ اس امید سے رکھ آتا ہوں کہ وہ میرا کچرا بھی لے جائے پھر کیا ہوتا ہے وہ اس زیادتی کی وجہ نہ اپنا کچرا اٹھتا ہے اور نہ ہی میرے والا ۔ ہم ہر وقت دوسروں کا برا سوچتے ہیں.ہم ساری زندگی اس سوچ میں رہتے ہیں کہ فلاں شخص نے ترقی کیسے کر لی کیوں کرلی اب اس کو واپس اپنی پوزیشن پر کیسے لانا ہے
ہم دوسروں کی گاڑی سے نکلتا دھواں دیکھ لیتے ہیں پر اپنی گاڑی کا دھواں ہمیں خوبصورت لگتا ہے بازار چوک چوہارے پر کوئی چور رنگے ہاتھوں پکڑا جائے سب معززین جمع ہو کر اس کی لتریشن فرمائیں گے، کہ اس نے چوری کی،پر اپنی چوری کسی کو نظر نہیں آئے گی۔ اس چور کو وہ بھی مار رہا ہو گا جس نے کچھ دیر پہلے سودا کم تول کے دیا ہوگا ،اور وہ بھر مار رہا ہوگا جس نے دونمبر چیز بیچی ہوگی ،وہ بھی اپنے ہاتھ سیدھے کرتا ہے جو کچھ دیر پہلے دفتر سے رشوت لے کر آیا ہو اور رشوت کی رقم بھی اس کی جیب موجود ہو۔ بجلی چور،ملاوٹ کرنے والا،اڈے سے بھتہ لینے والا،ہمسایوں رشتہ داروں اور یتیموں کا حق کھانے والا بھی سب چوری کی تفتیش میں شامل ہو جاتے ہیں اب خود بتائیں کیسے اس ملک میں کرپشن ختم ہو ہم تو کسی نہ کسی طرح خود کرپٹ ہیں۔ یہاں ہر شخص اپنے آپ کو حاجی صاحب ،نیک پاک ، صادق اور امین سمجھتا ہے۔ اور دوسروں کو چور بے ایمان سمجھتا ہے
ہماری اندر کی آلودگی کا حال یہ ہے ہم جس سے بھی ملتے ہیں پیٹ پیچھے اس کی برائی کرتے ہیں ہم ہاتھ ملاتے ہیں اور اپنے منہ سے لفظ خیر کا نکالتے لیکن دل میں اسے گالیاں دے رہے ہوتے ہیں ہماری نیتوں میں کھوٹ آ چکے ہیں آج کے دور میں تعلق رشتہ داری یا پھر دوستی یاری سب پر مطلب کا زنگ چڑھ چکا ہے بغیر مطلب سلام دعا ہی نہیں کی جاتی. ہمارا تو حال صرف زندہ لوگوں تک ہی محددود نہیں رہا ہم تو جنازے بھی دیکھاوے کے لیے پڑتے ہیں۔ ہم مرنے والے کی رسومات پر خوب خرچ کرتے ہیں لیکن جب اس کے پاس دوائی ،کھانا اور کپڑے تک نہیں تھے تو بس یہ فرماتے تھے اس نے اب کون سا زندہ رہنا ہے پھر رسمیں پوری کر کے ہم مردے کے ساتھ منافقت نہیں تو اور کیا کرتے ہیں؟
ہم ایک دوسرے کو ایک پل کے لئے برداشت نہیں کرتے ہیں. اگر بس میں سوار ہونا ہے تو پہلے میں، دوکان سے سودا لینا ہو تو پہلے میں،کھانے کھانا ہو تو پہلے میں،ہم زندگی کے ہر شبعے میں ایک دوسرے کے ساتھ منافقت کرتے ہیں۔ ہم دفتر سکول کالج بازار خوشی غمی حتی کہ عبادات میں بھی ایک دوسرے کا برا سوچتے ہیں. جب ماحول آلودہ ہوتا ہے تو اس کی بدبو ہر وقت دن رات عید بارات ہر طرف محسوس ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح من آلود ہو تو اس کی گِن ہر جگہ اور ہر موقع پر باہر نکلتی رہتی ہے پھر دوکان بازار دفتر ہو یا سفر یا پھر مسجد مندر چرچ سب جگہ اس کا اثر نکلتا ہے
ہم سٹرکوں اور گلیوں کے ٹوٹنے کی شکایت کرتے ہیں جب بن جاتی ہیں تو اس کے ٹوٹنے کا انتظار کرتے ہیں ہم ہی شامیانے لگا کر سٹرک بند کر دیتے ہیں تازہ بنی ہوئی سٹرک کو کاٹ کر سیوریج کا پائپ گزارتے ہیں. آپ کبھی کسی ایسی گلی پر غور کریں جس کی سولنگ کی اینٹیں غائب ہو چکی ہوں بس نشانات کے طور پر صرف اتنا محسوس ہو کہ یہاں کوئی سولنگ تھی، خود سوچیں کیا اتنی بھاری اینٹ ہوا میں اڑ گئی ،اسے وہ ٹھکیدار اکھاڑ کر لے گیا یا وہ سیاست دان جس نے بنوا کر دی ہے. آخر اس کی انیٹیں کو کوئی معاشرے کا فرد ہی لے گیا ہو گا۔
اگر ہمیں باہر کی آلودگی سے تکلیف ہوتی ہے تو ہمارے من کی آلودگی سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے جس دن ہم سب نے اپنے من کی آلودگی کو صاف کر دیا تو یقین کریں باہر آلودگی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ بس صرف نیت صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔