ہم نے کوئی بھی عکس چرانے نہیں دیا جس نے چراغِ ہجر بجھانے نہیں دیا اُس نے کوئی ملال بھی آنے نہیں دیا دنیا کو اپنی آنکھ سے تیرے جمال کا ہم نے کوئی بھی عکس چرانے نہیں دیا جب بھی خیال و خواب کی سرشار بزم میں تم آگئے تو پھر تمہیں جانے نہیں دیا چاروں طرف سے موردِ الزام ہیں مگر تجھ پہ تو کوئی حرف بھی آنے نہیں دیا سو بار گر چکے ہیں مگر تیری یاد میں پتھر کو راستے سے ہٹانے نہیں دیا ہم آج بھی ہیں جس کی طلب میں نڈھال سے اُس کا پتا سفر میں ہوا نے نہیں دیا ہم نے تمام عمر محبت کے کھیل میں خود کو تیری نظر سے گرانے نہیں دیا