تحریر : عماد ظفر کہتے ہیں ذہنی افلاس مالی افلاس سے زیادہ تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور خطرناک بھی.میں جس بستی جس معاشرے میں رہتا ہوں یہ ذہنی مفلسوں کی بستی ہے جہاں سب کو اپنی اپنی پارسائی کی جھوٹی فکر ہے.ایک ایسی بستی جہاں ہر شخص پارسا ہے اور اس کی نظر میں ہر دوسرا شخص گنہگار.ایک ایسی بدبودار اور گلی سڑی سوچ کا معاشرہ جہاں گھٹن کی قید اور مصنوعی دکھاوے میں جینا ضروری ہے وگرنہ بدبودار اور زہنی طور پر بونے آپ کو معاشرے اور نظام سے باہر نکال پھینک دیتے ہیں. چکلے خانوں سے لیکر کارپوریٹ کلچر کے نام پر مجبور خواتین کا گوشت گدھ کی طرح نوچنے والے شرفا بن جاتے ہیں اور منٹو جالب یا اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد گناہ گار یا کافر۔
اگر غور کریں تو معاشرے کی بنیادی نفسیات یہ بن چکی ہے کہ دوسرے کے عیبوں پر نظر رکھو اور خود حرام مال سے لیکر رشوت خوری یا پھر کارپوریٹ کلچر کے نام پر خوب چونا لگاتے ہوئے ٹیکس گوشواروں میں ہیر پھیر اور منافع کی ایک اندھا دھند بھیڑ چال. یہاں ہر کوئی دوسرے کی زندگی پر یوں نظریں جمائی بیٹھا ہے کہ جیسے اسے رب کائنات نے ٹھیکا دیا ہو دوسروں پر نگاہ رکھنے کا. حرام حلال کی مالا جپتے گدھ خود جہاں جہاں کوئی موقع بھی ملے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن دوسروں پر حرام حلال کے فتوے صادر کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتے۔
دانشوری کے نام پر مسخرے بیٹھے عورت کے پردے یا آزادی پر باتیں کرتے پھرتے ہیں آور پھر انہی خواتین کی آغوش میں اپنی جنسی جبلت کی تسکین کیلئے مارے مارے بھی پھرتے ہیں. اسی طرح اخلاقیات اور سچائی پر بھاشن دیتے زبردستی کے دانشور اپنی اپنی بساط کے مطابق ایک روپیہ بھی جانے نہیں دیتے چاہے وہ حلال کا ہو یا حرام کا. مکانوں میں دو نمبر سیمنٹ بجری لگانے والے ٹھیکیدار ہوں یا پھر مذہبی اجارہ دار ان سب کو اپنی جیبیں بھرتے نہ تو کوئی اصول یاد رہتا ہے اور نہ ہی کوئی حرام حلال کا تصور. کارپوریٹ سیٹھ ہوں یا پھر ان کے منشی ان کا وقت ویسے تو ایتھکس اور آرگنائزیشن سٹرکچر کے بھاشن دیتے گزرتا ہے لیکن عملی طور پر پیسوں منافع اور تسکین کیلئے انہیں کوئی ایتھکس یاد نہیں رہتا۔
Society
دراصل ہماری ترجیحات ہی غلط ہیں ہم نے معاشرے میں ایک ایسی جھوٹی پٹی اور کسوٹی رکھی ہوئی ہے کہ جس کے مطابق شخصی عیب جن کا فیصلہ خدا نے کرنا ہے ہم نے اس کو اپنے ذمہ لے رکھا ہے جب کہ ایسے گناہ جو معاشرے میں کرپشن سے لیکر اختیارات کے ناجائز استعمال ٹیکس چوری کمیشن چوری چھپے کھانا یا پھر ملاوٹ ، جن کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے وہ سب یا تو خدا پر چھوڑے ہوئے ہیں یا پھر ان سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے. یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی دنیا سے کئی سو برسوں پیچھے جی رہے ہیں. اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اپنے اوپر نیم حکیم حکمران یا سیٹھ اور منشی مسلط کرنے کے بعد ہم ترقی نہ کر پانے کی دہائیوں سے لیکر معاشرے میں فکری اور دانشوری کی زبوں حالی کا رونا بھی روتے نظر آتے ہیں. خوشامد کرنا اور اپنے سے اوپر رتبے والے کی مالش کرنا ویسے ہی ہماری سرشت میں شامل ہے تو پھر سیاسی کرسی ہو یا کارپوریٹ کرسی وہاں بندر ہی بیٹھے ملیں گے جو اپنے آپ کو سکندر سے کم نہیں سمجھتے ہوں گے۔
اس کا دوسرا پہلو وہ تنگ نظری کی فضا اور تعفن زدہ رسوم و رواج ہیں جو اس سوچ کے سائے تلے پلتے ہوئے نسلوں کی نسلوں کو فکری طور پر بانجھ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم رکھتے ہیں.جو شخصی آزادی کو مذہب یا جھوٹے اور کھوکھلے اصولوں تلے دبائے ہی چلے جاتے ہیں. نتیجتا ایک ایسا معاشرہ اپنی رو میں مست چلے ہی جاتا ہے جو نہ صرف نرگسیت پسند ہوتا ہے بلکہ سوچ و فکر یا علم سے عاری. جون ایلیا نے کہا تھا کہ اپنی بستی کے کسی ایسے انسان کو نیہں جانتا جو اگر پیدا نہ ہوتا تو پیدا ہو جانے والے گھاٹے میں رہتے۔۔۔ یہاں سب بونے ہیں اور میں ان میں سے ایک ہوں سو مجھے اپنی اوقات معلوم رہنی چاہیے ۔۔جون ایلیا مرحوم نے کہا تھا کہ اپنی بستی کے کسی ایسے انسان کو نیہں جانتا جو اگر پیدا نہ ہوتا تو پیدا ہو جانے والے گھاٹے میں رہتے۔۔۔ یہاں سب بونے ہیں اور میں ان میں سے ایک ہوں سو مجھے اپنی اوقات معلوم رہنی چاہیے ۔ اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔
جو قد آور ہیں انہیں بونے سر اٹھا کر یا تو دیکھتے ہی نہیں یا پھر قدغنوں کی زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں. افسوس یہ ہے کہ ان بونوں کی وجہ سے تنگ نظری اور شدت پسندی کا تعفن معاشرے میں بری طرح پھیل چکا ہے اور ابھی بھی یہ بونے نام نہاد اصولوں یا اخلاقیات کے نام پر مزید قدغنیں لگا کر اس معاشرے کو قبرستان بنانا چاہتے ہیں. اس ذہنی مفلسی اور افلاس سے جنگ کرنے کیلئے کئی قد آور لوگ موجود ہیں لیکن روایات اور جھوٹے اصولوں کی قید میں جکڑے ہوئے. اپنے زنجیروں میں بندھے ہاتھوں بیڑیوں میں جکڑے پیروں اور قدغنوں کے پھندوں میں جکڑی گردنوں کے باوجود وہ کوشش کرتے ہیں کہ اس تعفن کو ختم کریں جو کہ قابل ستائش ہے. لیکن شاید بطور معاشرہ ذہنی و فکری بلوغت کیلئے ہمیں ایک طویل عرصہ درکار ہے کیونکہ ہم بصیرت اور بصارتوں کے بجائے خود تراشیدہ قدغنوں پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں.جو دوسروں کو تو آئینے دکھانے کے شوقین ہیں لیکن خود اس نعمت سے محروم۔