تحریر: سلطان حسین کاروباری دنیا میں warren Buffett کو کون نہیں جانتا انہوں نے اپنی شخصیت کی وجہ سے دنیا میں اپنا نام بنایا ان کی پہچان ہی دیانت اور اور سچائی تھی ان کا ایک قول ہے کہ ”دیانت داری اور سچائی بہت مہنگا تحفہ ہے گھٹیا لوگوں سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی ” اگر عام زندگی میں ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں اس قول پر سو فیصد بلکہ ایک سو ایک فیصد یقین کرنا پڑتا ہے آج دنیا بھر اور خصوصاََ پاکستان میں تو اس قول پر ایمان کی حد تک یقین کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے بڑے بزرگوں کا بھی کہنا ہے کہ سچ بڑا کڑوا ہوتا ہے لیکن چا چا خواہ مخوا کا کہنا ہے کہ سچ کھانے کی چیز توہے نہیں نہ چکنے کی شے ہے پھر کیسے علم ہو کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اگر ہم کہیں کہ چاچاخواہ مخواہ واقعی خواہ مخوہ ہی ہیں تو غلط نہ ہوگاچاچا خواہ مخواہ بڑے سادہ لوح قسم کے انسان ہیں جوبات دل میں ہوتی ہے وہی زبان پر بھی ہوتی ہے اکثر وہ اپنی سادگی کی وجہ سے مار بھی کھاتے ہیں لیکن پھر بھی نہیں سمجھتے لوگ ان کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اس کی شکایت نہیں کی اور اگر کبھی کی بھی ہے تو دبے لفظوں میںچاچا خواہ مخواہ کی اس بات پر ہمیں بڑی ہنسی آئی ” چاچاآپ واقعی خواہ مخواہ ہی ہیں سچ یقیناََ کھانے کی چیز تو ہے نہیں لیکن سچ بولنا بھی سچ کھانے کے برابر ہی ہے کیوںکہ سچ آسانی سے ہضم نہیں ہوتا بڑے بڑے دل گردے والے لوگ سچ سننے کی تاب نہیں رکھتے بلکہ پہلے زمانے میں تو بادشاہ سچ بولنے والوں کو سولی پر چڑھا دیا کرتے تھے۔
اب تو وہ بادشاہ نہیں لیکن ان کے شاہانہ مزاج نے بڑے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے اور وہ انہی بادشاہوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں بڑے بزرگ اسی لیے کہتے ہیں کہ سچ واقعی بڑا کڑوہ ہوتا ہے دنیا میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو سچ کھلے دل سے سنتے ہیں اور اپنی اصلا ح کرتے ہیں ورنہ تو اکثر لوگ سچ بولنے و الوں کے دشمن ہوجاتے ہیںکیونکہ جو انہیں آئینہ دکھاتے ہیں تو وہ برامان جاتے ہیںلیکن آئینہ تو پھر آئینہ ہے وہ وہی دکھائے گا جو آپ ہیں قارئین آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے یہ اس قدر بڑی تمہید باندھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی یا میں آپ کو کس طرف لے جانا چاہتا ہوںمیرا مقصد کیا ہے اورمیں کیوں بات کو گما پھیرا کر رہا ہوں۔
Terrorism
بات کا بتنگڑ کیوں بنا رہا ہوں تو یقین جانیں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ بات کا بتنگڑ بنا دوں بات کا بتنگڑ تو وہ لوگ بنا رہے ہیں جو سچ سننے کا حوصلہ نہیں رکھتے اب یہی دیکھ لیں کہ جب قوم کو دہشتگردی سے نجات دلانے والے محسن نے حکمرانوں سے کہا کہ ملک میں اچھی حکمرانی نہیں ہے تو سب کو اس میں اپنا چہرہ نظر انے لگا اور وہ سب پھر متحد ہوگئے ہر ایک کو اپنا دھڑکا لگ گیا ہر ایک اپنے اپنے انداز میں اس بات کو دیکھنے لگا اور دیکھ رہا ہے کوئی اسے حکومت کے لیے انتباہ قرار دے رہا ہے کسی کو اس میں مارشل لاء کی جھلک نظر آرہی ہے کسی کو اس میں اپنا چہرہ نظر دیک رہا ہے کچھ بڑوں کو ہدایات لگتی ہیں کوئی اسے احکامات سے تعبیر کر رہا ہے جبکہ مخالفین خوشی سے بغلیں بجارہے ہیں انہیں اس میں چپقلش نظر آرہی ہے ہر ایک اسے اپنے مقصد کے مطابق لے رہا ہے۔
کوئی اس پر غور نہیں کر رہا نہ ہی اس پیغام کے اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے یہ کیا ہے حکم یا احکامات ہدایت یا تجویز ‘ مشورہ یا پھر نصیت کوئی اسے کچھ بھی سمجھ لے یہ اس کی اپنی ذہنی سطح ہے لیکن جو حقیقت ہوگی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو یہ سورج کو انگلی سے چھپانے والی بات ہوگی یہ جو کہا گیا ہے کہ ملک میں اچھی حکمرانی (گڈگورننس) نہیں ہے تو کیا یہ بات صرف جنہوں نے کہی ہے انہی ہی کی بات ہے یا پوراملک یہ کہہ رہا ہے سب کہہ رہے ہیں۔
ملک کا ہر فرد واشگاف انداز میں چیخ چیخ کر فریاد کر رہا ہے لیکن کوئی سننے والا ہی نہیں یا جو سن رہے ہیں انہوں نے خود کو گونگا بہرہ بنا رکھا ہے یا پھر وہ سننا ہی نہیں چاہتے وہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں کیا اس سے انکار کیا جاسکتا کہ فورسز نے جن دہشتگردوں کو بڑی جدوجہد سے پکڑا تھا وہ حکومت کی سردمہری اور عدم دلچسپی کے باعث دوبارہ رہا نہیں ہوئے ؟ دور کیوں جائیے ماضی قریب ہی میں نظر ڈال لیجیے تو خود بخود آئینہ نظر آجائے گا جنہوں نے اس عمل میں ملک کے لیے جانیں قربان کیں کیا۔
ان کے دل نہیں پھٹیں گے ‘ کیا ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم نہیں ‘کیا تاوان کے لیے اغواء کی وارداتیں کوئی ڈھکی چھپی بات ہے ‘کیا قومی دولت کو حکمرانوں کی آشیرباد سے دونوں ہاتھوں سے نہیں لوٹا جارہا ؟کیا قومی ملکی املاک کو بااختیار لوگ اپنے من پسند افراد میں اونے پونے داموں نیلام کرکے تقسیم کرنے کی کوششیں نہیں ہورہی ؟بلکہ اب تو اپنے بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ کیا نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر دربدر نوکریوں کے پیچھے خور نہیں ہورہے ؟نئی نسل ملازمتوں کے پیچھے پھیر رہی ہے اور نوکریوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے ؟اپر کلاس کے لوگوں نے بڑے عہدوں پر قبصہ کر رکھا ہے کسی کا ماموں کسی کا چچا کسی کا بھائی کسی کا بہنوئی اور کسی کا داماد اہم عہدوں پر براجمان ہے۔
ایک کے 24 اہم قریبی رشتہ دار اور ایک کے 8 رشتہ دار بڑے عہدوں پر قابض ہیں اس کے علاوہ دونوں کے دیگر 200 رشتے داروں نے بھی اچھی سیٹوں پر قبصہ جما رکھا ہے یہ تو صرف دو کے اہم رشتہ دار ہیں باقی کے کتنے ہوں کے اگر اس کا کی نشان دہی کی جائے تو پھر کوئی بھی اہم عہدہ نہیں بچے گا زیادہ تر اہم عہدے ان لوگوںکے لیے ”بک ” ہو چکے ہیں یا پھر ان کی سیل جاری ہے جو زیادہ بولی لگائی ”مال” اس کا ۔ عام آدمی کے بچے تو اعلیٰ تعلیم کرکے بھی خوار ہی ہورہے ہیں کیا سب متحد ہونے والے اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ قبضہ مافیا ‘جرائم پیشہ لوگوں اور بدمعاشوں کی سرپرستی وہ نہیں کررہے ؟کیا ان لوگوں کو یہی بااثر لوگ اپنے مقصد کے لیے استعمال نہیں کررہے ہیں؟ کیا ملک کا کوئی بھی شعبہ ایسا ہے جس پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہو ؟ ہر شعبے میں مافیا ہے۔
حتی کے ہسپتالوں پر بھی ایک الگ مافیا کا قبصہ ہے ۔ہر محکمے کا آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہے جسیے بڑے بھی ٹھیک نہیں کر سکتے یا پھر وہ اسے ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتے تاکہ لوگ انہی کے محتاج رہیں ہر شعبہ مدر پدر آزاد ہے اپنی من مانی کر رہا ہے کارخانے دار اپنے ریٹ پر مال فروخت کر رہا ہے ‘مہنگائی کا یہ حال ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ اس کے ہاتھوں بری طرح پس رہا ہے اور اب تو بات خودکشیوں تک بھی جاپہنچی غربت کے ہاتھوں خودکشیاں تو اب اس ملک میں عام سی بات ہے غربت اور مہنگائی کی وجہ سے کچھ تولوگوں کی عزتیں سرعام نیلام ہورہی ہیں اور جو عزتیں محفوظ ہیں وہ بااثر لوگوں کے گماشتے لوٹ رہے ہیں انصاف ملنا تو دور کی بات ہے انہیں حکومتی افراد کی ایماپر ہی خاموش کرایا جا رہا ہے انہیں خاموش رہنے کے لیے زندگی کے خاتمے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ملک کے ہر شعبے میں کرپشن ہے۔
Corruption
کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو جب حکمران کروڑوں اور اربوں کے کمیشن کھارہے ہوں تو کسی اور کو کیسے روکا جاسکتا ہے کیا حکمران اور متحد ہونے والے اس سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہسپتالوں کے آگے جعلی ادویات فروخت نہیں ہورہی ہیں؟ اور کیا ہسپتالوں میں الگ کمیشن مافیا موجود نہیں ہے ؟ جن کی جڑیں انتی مضبوط ہیں کہ وہ بڑوں کو بھی آنکھیں دیکھا رہے ہیں جسے دیکھ کر وہ دب جاتے ہیں حالانکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا خوراک میں تو مردہ جانوروں کا گوشت تک بڑے دھڑلے سے فروخت ہورہا ہے جس میں حکومتی اہلکار ہی شامل اور ملوث ہوتے ہیں اور اب تک اس کے کئی ثبوت سامنے آچکے ہیں بلکہ اب تو مردار اور غیر حلال جانوروں کا گوشت تک بیچا جا رہا ہے کیا گڈ گورننس میں یہ سب کچھ ہوتا ہے ؟ اگر اسے ہی گڈ گورننس کہتے ہیں تو پھر بیڈ گورننس کیا ہوگی اس کی وضاحت کون کرئے گا؟ اگر اسے ہی گڈ گورننس کہتے ہیں تو پھر ایسی گڈ گورننس سے اللہ بچائے۔
ملک میں اتنا سب کچھ ہو رہا ہے پھر بھی بڑے کہتے ہیں کہ ملک میں گڈ گورننس ہے اور دل میں چور رکھنے والے ان کی ہم نواہی میں لگے رہتے ہیں جن کے دل میں کھوٹ ہے ان کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے اسی لیے وہ سب ایسے مواقع پر اختلافات بھلا کر آپس کے گلے شکوے ختم کر کے مل بیٹھتے ہیںتاکہ ان کا بھرم قائم رہے لیکن آخر کب تک ؟ جب آئینہ میں اپنا چہرہ دھندلا نظر آنے کے باوجود بھی اسے دھندلا نہ کہا جائے تو پھر کوئی تو ایسا ہوگا جو کہے کہ یہ چہرہ دھندلا ہے اور جو ایسا کہے تو پھر اس میں براماننے والی کیا بات ہے بلکہ اس پر برا ماننے کی بجائے آئینے دکھانے والے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے غلطیوں کی نشان دہی کی اور اس نشان دہی پر دھندلے آئینے کو صاف کرنے کی ہمت کرنی چاہیے نہ کہ آئینہ صاف کرنے کا مشورہ دینے والے کے پیچھے پڑ جانا چاہیے۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹٹے۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اوریہ صرف موجودہ دور تک ہی منحصر نہیںہر آنے اور جانے والے کے دور میں یہی صورتحال رہی ہے جو موجودہ وقت میں کچھ زیادہ ہی نظر آرہی ہے اور یہ گذشتہ ایک دھائی سے بہت زیادہ ہوگئی ہے جس کے اصلاح کی ضرورت ہے نیک نیتی سے جو مشورہ ‘ہدایت یا تجویز دی گئی ہے اس پر عمل وقت کا تقاضا ہے اور اس تقاضے سے آنکھیں بند نہیں کی جانی چاہیے جن کا یہ مشورہ ‘ہدایت یا تجویز ہے وہ اس ملک کی جان ہیں اور اس کی بہتری چاہتے ہیں اس کے لیے انہوں نے قربانیاں دی ہیں اور ان ہی کی برکت سے ہم آج سکھ اور چین کی نیند سوتے ہیں۔
جن کو مشورہ دیا گیا ہے وہ بھی خود کو فرشتے کہتے ہیں اور اس ملک کی بہتری کا دعوی کرتے ہیں تو پھر اختلاف کس بات کا ؟؟؟کہتے ہیں ایک بچہ اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک سیب لیے کھڑا تھا اس کے والد نے مسکراتے ہوئے کہا ” بیٹا ایک سیب مجھے دے دو ”اتنا سننتے ہی اس بچے نے ایک سیب کو اپنے دانتوں سے کاٹ لیا اس سے پہلے کہ اس کے والد اس سے کچھ بول پاتے بچے نے دوسرا سیب بھی اپنے دانتوں سے کاٹ لیا اپنے بیٹے کی اس حرکت پر والد کا دل دھک سے رہ گیا اور ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی اس سے قبل کہ بچے کے والد کچھ بولتے یا ان کا رویہ بدلتا بچے نے اپنے نھنے سے ہاتھ اپنے والد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ” ابو یہ لیں یہ والا زیادہ میٹھا ہے ”ہمارے بڑوں کو بھی اس بچے کی طرح کا رویہ اپناتے ہوئے اپنے چھوٹوں کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے اور اگر ایسا وہ کرسکے تو پھر انہیں کسی نصیت ‘ تجویز یا مشورے کی ضرورت نہیں پڑے گی جب سب کچھ ”سب اچھا” کی رپورٹ کے ساتھ آئے تو پھر کسی کو تو حالات کی بہتری کے لیے تجویز یا مشورہ دینا پڑتا ہے یا نصیت کرنی پڑتی ہے۔