آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے

Elections

Elections

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
2013 ء کے عام انتخابات میں نواز لیگ نے وعدے بھی بہت کیے اور دعوے بھی لیکن اڑھائی سال گزرنے کے باوجود اُن کے وعدے محض ادھورے خواب۔ اگر پچھلے اڑھائی سالوں میں کچھ نہیں ہو سکاتو اگلے اڑھائی سالوں میں حکمران کیا تیر مارلیں گے۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دَورِح کو مت میں سب سے زیادہ شور لوڈشیڈنگ کے خلاف تھا اور حقیقت یہی کہ اسی لوڈشیڈنگ نے پیپلزپارٹی کو”نُکرے” لگا دیا اب یہی لوڈشیڈنگ نواز لیگ کے ساتھ بھی ”ہَتھ” کرنے جا رہی ہے۔

سابق وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف کانام ہی لوگوںنے ”راجہ رینٹل” رکھ دیا، اب نندی پورپاورپروجیکٹ اورسولرپارک پرانگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ یہ”پھڈے” ابھی درمیان میںہی تھے کہ ”نیپرا” نے بھی”کھڑاک” کردیا۔ نیپرا رپورٹ کے مطابق 70 فیصدصارفین کو غلط بِل بھیجے جاتے ہیں،میٹرریڈنگ زیادہ کی جاتی ہے، بجلی کانیا میٹرسسٹم ناکارہ ،شارٹ فال جعلی اور لوڈشیڈنگ جان بوجھ کرکی جاتی ہے۔ بعض پاورپلانٹس کی مشینیں3 سال سے بندہیں، تھرمل پاورپلانٹ کی انتظامیہ نے جان بوجھ کر مشینوںاور پاوریونٹس کوبند کررکھا ہے۔ نیپراکی یہ رپورٹ حکومتی کارکردگی پرسوالیہ نشان ہے ۔ پتہ نہیںیہ ہیسکو ،لیسکو، کیسکو ،فیسکو، میپکو ،آئیسکو اوراُس جیسی دوسری بلائیںکہاں سے آن ٹپکیں جنہوںنے قوم کاجینا دوبھر کر دیا۔

حکومت کو چاہیے کہ ”اِسکو ،اُسکو ،سَبکو”ختم کرکے ”ڈِسکو” میںضَم کردے تاکہ حکمران نچاتے اورہم ناچتے رہیں۔پتہ نہیںاِس فراڈکی ذمہ داری پانی وبجلی کے وزیرخواجہ آصف قبول کرتے ہیںیا پھرخود وزیرِاعظم صاحب لیکن یہ طے کہ بجلی کے بِلوںکی صورت میںعوام کی جیبوںپر جو”بجلی ” گرائی گئی اُس کاکوئی ”والی وارث” نہیںکہ مجبوروں، مقہوروںکی بھلاکون سنتا ہے۔

ویسے بھی اصول یہی کہ ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات” اورحکمران اسی فارمولے پرعمل پیرا۔اگر مہربانوںکایہی وطیرہ رہاتو پھرکہے دیتے ہی ںکہ 2018ء کے انتخابات دور نہیں۔

سوال مگر یہ کہ اگرنوازلیگ سے دامن چھڑالیا جائے توپھر کون سی ایسی جماعت ہے جوقومی اُمنگو ںپر پوری اترسکتی ہے؟۔ کیاقاف لیگ جس نے اقتدارکی خاطردرِ آمریت پہ زانوئے تلمذ تہ کیا، یاپھر ایم کیوایم جوہمیشہ آمروںکی بی ٹیم رہی، جس نے عروس البلادکراچی کوخونم کون کردیا۔ کیاپیپلز پارٹی ،جوکئی بارحکومت میںآئی لیکن ہمیشہ اُس کانعرہ بقول سیّدمشاہد حسین ”لُٹوتے پھُٹو” ہی رہا یاپھر تحریکِ انصاف جس کی کوئی ”کَل ” سیدھی نہیںاور جس کااندازِ سیاست یہ کہ

اتنی بھی بَد مزاجی ہر لحظہ میر تم کو
الجھاؤہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے

کپتان صاحب کے معیارپر سیاسی جماعتیںپوری اترتی ہیں نہ الیکشن کمیشن اورنہ ہی عدلیہ۔ نوازلیگ ،پیپلزپارٹی اورایم کیوایم سے الجھاؤ عیاںمگر یہاںتو عالم یہ کہ اُن کی نگاہوںمیں کوئی ججتا ہی نہیں۔ اُن کے قریب ترین عزیزحفیظ اللہ نیازی نے اُن کے بارے میںلکھا ”روزِ اوّل سے سیاست کی ساری اُمیدیںسیاسی جماعتوںکی موت سے لَف ہیں ، نا اُمیدی جناب کی دیکھاچاہیے، جب کوچۂ سیاست میںقدم رنجہ فرمایا ،اُمید ،خواہش ،آرزو ،آسرا ،ایک ہی، صدرفاروق لغاری دونوںپارٹیوں کوچلتا کریں۔ ”سنجیاںگلیاں” میںسیاست سجانے کاشوق آج بھی اُسی طرح موج زَن ”۔ حفیظ اللہ نیازی نے یہ کیالکھ دیا ،بھائی! آپ توعشروںتک کپتان صاحب کے رازداں رہے۔ آپ کہتے ہیںتو پھرٹھیک ہی کہتے ہوںگے لیکن پتہ کرلیجیئے کہ آپ کاکالم پڑھ کرکپتان صاحب کہیںہروقت یہ گنگناتے تونہیںرہتے کہ

کیا غمخوار نے رسوا ، لگے آگ اِس محبت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو

Election Commission

Election Commission

خواجہ سعدرفیق، ایازصادق اورصدیق بلوچ الیکشن ٹریبونلزکی مہربانی سے نا اِہل قرارپائے توتحقیقاتی کمیشن کی ”ڈَسی” تحریکِ انصاف کے تنِ مُردہ میںجان پڑگئی۔جلسے، جلوسوں ،ریلیوںاور دھرنوں کی باتیںہونے لگیںاور سونامیوںنے بھی ”لَنگوٹ” کَس لیے لیکن سپریم کورٹ نے حلقہ NA-154 لودھراںکے صدیق بلوچ کی رکنیت بحال کرکے نیا ”کھڑاک” کردیا اوراِس حلقے میںکروڑوں صرف کرنے والے جہانگیرترین ہاتھ ملتے رہ گئے۔غصّے میںبھرے کپتان صاحب نے بَنی گالہ میںپریس کانفرنس کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اورنوازلیگ پراُنہی الزامات کی ایک دفعہ پھربوچھاڑ کردی جن کاذکروہ گزشتہ اڑھائی سالوںسے متواتر کرتے چلے آرہے ہیں۔ اُنہوںنے کہا کہ نوازشریف کبھی اپنے امپائرکے بغیرنہیں کھیلتے، الیکشن کمیشن حکمرانوںکا زَرخرید اورپنجاب پولیس حکمرانوںکی ”گُلوبَٹ”۔ اُنہوںنے اپنے احتجاجی پروگرام میںردوبدل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کردیاکہ 4 اکتوبرکو ڈی چوک اسلام آبادکی بجائے حلقہ 122 لاہورمیں جلسہ ہوگا، 9 اکتوبر کوالیکشن کمیشن کے خلاف لاہورمیں احتجاج اورپھر 11 اکتوبر کے بعدسونامیوں کارُخ ڈی چوک اسلام آبادکی طرف موڑدیا جائے گا۔

غالباََ ہمارے کپتان صاحب کوبھی قومی اسمبلی کے حلقہ 122 میںواضح شکست نظرآ رہی ہے اسی لیے اُنہوںنے حفظِ ماتقدم کے طورپر ڈی چوک کاانتخاب 11 اکتوبرکے بعدکیا ہے کیونکہ یہ توطے ہے کہ اِس حلقے میںعبدالعلیم خاںکی شکست کوتحریکِ انصاف ”ٹھنڈے پیٹوں”ہضم نہیںکرنے والی۔ آج کپتان صاحب اورجہانگیر ترین سمیت سبھی سونامیے یہ الزام لگارہے ہیںکہ نوازلیگ حکمِ امتناہی کے پیچھے چھُپ گئی۔

حیرت ہے کہ اگرتحریکِ انصاف کے غلام سرورخاں، قیصرجمال، اعجازچودھری اورراجہ عامرزماں حکمِ امتناہی کے پیچھے چھپیںتو درست لیکن خواجہ سعدرفیق اورصدیق بلوچ سپریم کورٹ کارُخ کریںتو غلط، بالکل غلط۔ اطلاعاََ عرض ہے کہ الیکشن ٹربیونل نے جس رکنِ اسمبلی کے خلاف بھی فیصلہ دیااُس نے سپریم کورٹ کادَر ضرورکھٹکٹایا۔آج بھی تحریکِ انصاف ، نوازلیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے قومی وصوبائی اسمبلیوںکے 35 اراکین عدالتی حکمِ امتناعی کے زورپر اسمبلیوںمیں براجماں ہیںاِس لیے یہ الزام سَراسر بلاجواز کہ صرف نوازلیگ حکمِ امتناعی کے پیچھے چھپی بیٹھی ہے۔ آخرمیں فقط اتناکہ ہم تومہربانوںکو آئینہ دکھاتے رہیں گے، یہ الگ بات کہ نقارخانے میں طوطی کی آوازکون سنتا ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر