آئینے اور عکس کی باتیں

Law

Law

تحریر : شاز ملک فرانس
آج کس قدر اداسی ھے ناں آئینے میں ڈولتے میرے عکس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ھوئے پوچھا تو میں نے نظریں چراتے ھوئے آیستگی سے کہا آج سردی بہت ھے اور تمہیں تو پتہ ھے کہ سردی اور اداسی دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ھے میرا عکس مسکرا کر سرد آہ بھرتے ھوئے بولا باتیں بنانے میں تمہیں بہت مہارت ھے مگر دیکھو زرا میری طرف کیا میں تمہاری بات پر یقین کر لوں میں نے نظریں اٹھائے بنا کہا ھاں یقین کر لو اس نےُ گہرا سانس بھرا اور خاموشی اختیار کر لی ھم دونوں اب خاموش ھو کر ایک دوسرے سے نظریں چرائے سوچ کی وادیوں میں گم ھو چکے تھے۔

تب میرے عکس نے مجھ سے اک عجیب سوال پوچھا وہ پوچھتا ھے کیا تمہیں پتہ ھے کہ دیواریں چپ کی زبان میں آپس میں سارے جہان کی باتیں ڈسکس کرتی ھیں ؟ میں نے گڑبڑا کر کہا مجھے نہیں پتہ تو وہ کہنے لگا تم نے کبھی سنا نہیں کہ دیواروں کے بھی کان ھوتے ھیں میں نے اسے دیکھا اور اک خیالُ کی دسترس میں دل کو پا کر ٹھنڈی سانس بھری تو میرا عکس چونک کر مجھ سے کہنے لگا تم کیا سوچ رھی ھو میں نے افسردگی سے کہا کون جا کر نیند کے قلب میں دھڑکتے خوابوں کے فسوں سے بینائ کو رہائ دلوائے کون احساس کی گلیوں میں روند کر پھینکے ھوئے شیشے جیسے ٹوٹے لوگوں کی کرچیوں کو چن کر انکے درد کا مداوا کرے۔

میں نے گڑ بڑا کر کہا بہت بولتے ھو تم وہ جل کر بولا تم یوں بھی تو کہہ سکتی ھو کہ تم بہت سچ بولتے ھو میں نے تیزی سے اسکی بات کاٹ کر کہا ھم اس ملک کے باسی ھیں جہاں سچ کو بین کر دیا جاتا ھے سچ کے ھونٹوں پر مصلحت کے تالے لگا کر جھوٹ کی صلیب پر مصلوب کر دیا جاتا ھے یہاں جھوٹ کی راجدھانی میں سچ کے منہ پر چپ کی کالک کھنکتے سکوں کی صورت مل دی جاتی ھے واقعاتی حقائق کو جھوٹ کی دیواروں میں زندہ چنوا دیا جاتا ھے اور تب بے بسی کے کوٹھے کی بدرنگ زمین پر جھوٹ کے پاؤں میں سچ کے گھنگھرو باندھ کر عزتوں کا جنازا نکال دیا جاتا ھے۔

جس ملک میں عزت کا معیار جیب میں کھنکھتے سکوں سے ھو وھاں کوئ قانون نہیں ھوتا وھاں جنگل کے قانون چلتے ھیں جسکی لاٹھی اسکی بھینس میرا عکس حیرت سے کہنے لگا آج تم اتنی تلخ کیوں ھو میں نے زندگی کا تلخ گھونٹ نگلتے ھوۓ بڑی تکلیف سے کہا جس ملک میں سرعام بچوں بچیوں کو زلیل کر کے انکی معصومیت چھین کر قتل کر کے کچرہ کنڈیوں میں پھینکا جانے لگا ھو جہاں قاتلوں کے ڈر سے مایئں اپنے دوسرے بچوں کی عزتیں جانیں بچانے کےُلئیے اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کر نے لگیں جہاں قاتل قید میں ھوتے ھوۓ بھی یوں آزادی سے رھیں جیسے وہ کوئ معزز کام کر کے کسی ایوارڈ کے مستحق ھوں۔

اس طرح اس ملک میں قانون کی اخلاقی گراوٹ کا اندازہ آسانی سے لگا یا جا سکتا ھے جہاں مدرسوں میں دین کا علم سکھانے والے جانور بن جائیں وہ انسانیت کا سبق نہیں پڑھا سکتے ایسے بے دین لوگ دین کا علم دکھائیں گے تو پھر ان مدرسوں سے دھشت گرد بے دین بچے ھی معاشرے کو ملیں گے میرا عکس گہرا سانس بھر کر بولا بے دین لوگ حاکم بن جایئں حکمرانوں کی سوچ کی اُڑان بھی پیسے اور اقتدار کی ھوس سے نہ بڑھ پاۓ تو وھاں ایسا ھی ھوتا ھے تم کہاں تک دل جلاؤ گی۔

میں نے آنکھوں کی نمی کو دل کی جانب موڑتے ھوۓ کہا آنکھیں ھی کیا دل اور روح تک جلتے ھیں اپنے ملک کی اخلاقی معاشرتی گراوٹ دیکھ کر کاش اس ملک نایاب کو ایسے لوگ سنبھال سکیں جو سچ میں مخلص ھوں۔

میرے عکس نے کہا ھم بے بس ھیں چلو آؤ دعا ھی کرتے ھےں کیونکہ ھم یہی دُعا ھی کر سکتے ھیں کہ اللہ ھمارے ملک کو اور وھاں بسنے والوں کو دیندار مخلص حکمران عطا فرمایئں جو قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے قانون نافز کر سکیں کہ ظلم کا بازار تہس نہس ھو جائے اور ھر طرف امن و آشتی کا دور دورہ ھو جائے میں بے اختیار روتے ھوۓ ھاتھ اٹھا کر آمین کہتے ھوئے سجدے میں جا چکی تھی۔

Shaaz Malik

Shaaz Malik

تحریر : شاز ملک فرانس