تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری قادیانیت انگریزی استعمار کی ضرورت اور پیداوارجب انگریزی استعمار اپنے تمام تر مظالم اور جبرواستبداد کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے دل سے جذبہ جہاد ختم نہ کرسکا تو 1869ء کے اوائل میں برٹش گورنمنٹ نے ممبران برٹش پارلیمنٹ‘ برطانوی اخبارات کے ایڈیٹرز اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سر ولیم میور کی قیادت میں ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو رام کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کیا جاسکے ۔ برطانوی وفد ایک سال تک برصغیر میں رہ کر مختلف زاویوں سے تحقیقات کرتا رہا۔ 1870ء میں وائٹ ہال لندن میں اس وفد کا اجلاس ہوا جس میں اس وفد نے برطانوی راج کی ہندوستان میں آمد کے عنوان سے دو رپورٹس پیش کیں۔ جن کاخلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے سوا تمام مذاہب کو کفریہ مذاہب سمجھتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف مسلح جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دے کر‘ جہاد کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے کے مذہبی عقیدہ کے مطابق انگریزی حکومت‘ کافر حکومت ہے۔
اس لئے مسلمان اس حکومت کے خلاف بغاوت اور جہاد میں مصروف رہتے ہیںجو برطانوی حکومت کے لئے مشکلات کا سبب ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے ۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو انگریز حکومت کے جواز اور اس کے خلاف بغاوت و جہاد کے حرام ہونے کی بابت الہامی سند پیش کردے تو ایسے شخص کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لئے مفید کام لیا جاسکتا ہے ۔ ان رپورٹس کو مدنظر رکھ کر برطانوی حکومت کے حکم پر ایسے موزوں شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام کے لئے سند مہیا کرسکے اور جس کے نزدیک تاج برطانیہ کا ہر حکم وحی کے مترادف ہو۔ ایسے شخص کی تلاش ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ‘ پارنکسن کے ذمہ لگائی گئی۔ جس نے برطانوی ہند کی سینٹرل انٹیلی جنس کی مدد سے کافی چھان بین کے بعد چار اشخاص کو اپنے دفتر طلب کرکے انٹرویو کئے ۔ بالاخر ان میں سے مرزا غلام احمد قادیانی کو برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے نامزد کرلیا گیا اور اس کی سرکاری سرپرستی شروع کردی گئی۔
مرزا قادیانی کیوں برطانوی مفادات کے تحفظ کے لئے موزوں ترین شخص تھا؟ اس لئے کہ اس کا خاندان شروع سے ہی برطانوی سامراج کی خدمت اور کاسہ لیسی میں مشہور تھا۔ اس کا اعتراف خود مرزا قادیانی نے اپنی متعدد تحریروں میں کیا ہے بطور نمونہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
Mirza Ghulam Ahmad Qadiani
گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ خاندان: میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ کا پکا خیرخواہ ہے ۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھا‘ جن کو دربار گورنری میںکرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ئ میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریز کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے عین زمانہ عذر کے وقت سرکار انگریز کی امداد میں دیئے تھے ۔ ان خدمات کی وجہ سے چٹھیات خوشنودی حکام ان کو ملی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہوگئیں مگر تین چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں‘ ان کی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے محاذ پر مفسدوں کا سرکار انگریز کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریز کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا(کتاب البریہ ص 5,4,3‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 13‘ ص 6,5,4 مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)۔
پچاس برس سے وفادار جانثار خاندان:سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جانثار خاندان ثابت کرچکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کرمجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 21‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)۔
Books
سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں پچاس الماریاں:میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی ہیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصراور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے ۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں‘ ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں(تریاق القلوب ص 28,27 مندرجہ ذیل روحانی خزائن جلد 15 ص 156,155 از: مرزا غلام احمد قادیانی)۔
مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے :میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ‘ ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے ۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے (مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 19‘ از: مرزا غلام احمد قادیانی)
برطانوی گورنمنٹ کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے :بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے ‘ یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اور واجب ہے ‘ اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے ۔(اشتہارات القرآن ص 84‘ مندرجہ روحانی خزائن جلد 6‘ ص 380 از مرزا ق)۔
Maulana Rizwan Ullah Peshawar
تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری صدر اسلامک رائٹرز فورم کے پی کے 0313-5920580 rizwan.peshawarii@gmail.com