گزشتہ ماہ اگست کی 30 تاریخ بروز جمعہ المبارک شام 8 بجے کے قریب سینئر صحافی سرائے عالمگیرمیں نمائندہ 92 نیوزمرزا وسیم بیگ حویلی میں کارکھڑی کرکے جب گھر کے دروازے کے قریب پہنچے تو پہلے سے موجود ملزموں نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔گولیاں لگنے سے وہ شدید زخمی ہو گئے،تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال سرائے عالمگیر لیکر جاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ اطلاع ملتے ہی صحافیوں اور پولیس کی بڑی تعداد،تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال سرائے عالمگیر پہنچ گئی۔ مرزا وسیم کو چھ گولیاں لگیں۔مقتول کی بیوہ کی مدعیت میں تین نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ڈی پی او گجرات توصیف حیدر نے ،تحصیل ہیڈ کواٹرز ہسپتال سرائے عالمگیرمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مرزا وسیم دلیر اور نڈر صحافی تھا، مرزا وسیم پر حملہ معاشرے کے ضمیر پر حملہ ہے۔
بندہ ناچیز (ڈاکٹر تصور حسین مرزا) کا روڈ ایکسیڈنٹ کے سلسلہ میں 25 اگست سے دائیں بازو کی کہنی کی ہڈی کا فریکچر ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر معاشرتی اور صحافتی طور پر کٹ کر بستر پر آرام کرنے کی حالت تک رہ گیا تھا. یہی وجہ ہے پوران کی ممتاز سیاسی و سماجی شخصیات جن میں راجہ عبدلمجید لہری مرحوم و مغفور ۔ پوران کی ممتاز شخصیت راجہ بنارس خان رائیکہ مرحوم و مغفور اور اپنے بھائی مرحوم مرزا وسیم بیگ کے جنازوں میں شرکت نہ کر سکا.اللہ رحمت فرمائے بابا لقمان مسلم شیخ اور شبیر حسین رحمانی مرحوم کل پوران کے معروف سیاسی و سماجی شخصیت نمبردار راجہ عارف زمہ واریہ مرحوم کے دعا قل پر جاتے ہوئے بارش کی وجہ سے فریکچر بازو پر لگایا گیا پلستر بارش کے پانی سے خراب ہو گیا پھر دعا قل کی جگہ ہسپتال پہنچنا پڑا اور اس طرح بازو سے پلستر اتاروادیا گیا. ابھی درد اور تکلیف باقی ہے. یہاں پر میں ان دوستوں بھائیوں اور عزیزوں کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر تیمارداری کی. جنہوں نے فون سوشل میڈیا سے لمحہ بہ لمحہ دعاؤں سے نوازا. یہ دعاؤں کا اثر ہے جو چھ ہفتوں کا پلستر تین ہفتوں کے بعد کھل گیا ہے. بات کہاں کی کہاں نکل گی. عرض کر رہا تھا۔
تین ہفتوں سے زیادہ وقت گزر گیا مگر مرزا وسیم بیگ کے قاتلوں کا سراغ نہ ملا یا سراغ نہ لگایا گیا. صحافی برادری نے گروپ بندیوں زاتی اختلاف سے ہٹ کر مرزا محمد وسیم کے قاتلوں کی گرفتاری اور انصاف مانگا ہے. وہ بھی جب تحریک انصاف کی حکومت برسرے 7 اقتدار ہے. اور وزیر اعظم عمران خان کا دو ٹوک موقف ہے کہ انصاف سب کے لیے. مرزا محمد وسیم بیگ کے قاتل گرفتار نہ ہونے پر ضلع گجرات کے تمام شہروں قصبوں سمیت جہلم دینہ سوہاوہ پنڈدادنخان. ضلع منڈی بہاؤ الدین اور آزاد کشمیر کے صحافیوں نے اجتماعی اور انفرادی اجتجاج کیا ہے پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آواز اٹھا رہے ہیں لیکن پولیس کی طرف سے طفل تسلیوں کے علاوہ ابھی تک کچھ بھی منظر عام نہیں آیا. محکمہ پولیس میں خداداد صلاحیتوں اور قابل افسران کی کمی نہیں اور آج کے جدید ٹیکنالوجی دور میں قاتلوں کا سراغ نہ ملے یہ بھی ممکن نہیں.
اگر مرزا وسیم بیگ کے قاتلوں تک قانون نافز کرنے والے ادارے یا پولیس پہنچنا چاہیے تو اس کے لے زیادہ تگ و دو کی بجائے پولیس موبائل ڈیٹا سے دھمکیوں کا سراغ لگا سکتی ہے. مقامی لوگوں سے پیار محبت اور اعتماد کی فضاء بنا کر قاتلوں کا پیچھا کر سکتی کیونکہ شام 8 یا ساڑھے آٹھ بجے گلیاں سنسان نہیں بلکہ گلیوں میں گہماگہمی آمدورفت ہوتیں ہے. اہل بھلوال کا خاموش ہونا قاتلوں کی دہشت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جب تک مرزا سلیمان بیگ کے قاتل قانون کے شکنجہ میں جھکڑے نہیں جاتے تب تک صحافی برادری سکون سے بیٹھ نہیں سکتے ۔ ڈی پی او گجرات آپ نے .کہا کہ مرزا وسیم دلیر اور نڈر صحافی تھا، مرزا وسیم پر حملہ معاشرے کے ضمیر پر حملہ ہے۔تو حملہ آور وں کو قانون کے شکنجہ پر کب کسیں گئے؟