تحریر : شیخ خالد زاہد پاکستانی کرکٹ کا آسمان ستاروں کی کہکشاؤں سے جگمگا رہا ہے، ان ستاروں پر مشتمل ایک طویل فہرست ہے۔ اس فہرست میں وہ تمام نامی گرامی کھلاڑی موجود ہیں جنہوں نے پاکستان کا نام دنیا بھر میں اپنی محنت اور لگن سے روشن کر رکھا ہے۔ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی کرکٹ کی بات ہوتی ہے تو پاکستان کو ان کھلاڑیوں کی مرہونِ منت ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ کہیں لوگ عبدالقادر کی وجہ سے پاکستان کو جانتے ہیں، کہیں اس پہچان کیلئے عمران خان کا حوالہ دیا جاتا ہے اور شاہد آفریدی تو شہرت کی بلندیوں پر پاکستان کو لے گئے۔کرکٹ سے وابسطگی رکھنے والے جاوید میانداد کا چھکا، شاہد آفریدی کے چھکے، وسیم و وقار کی سوئنگ اور مصباح الحق کی ٹک ٹک سے بہت اچھی طرح واقف ہیں بلکہ معترف ہیں۔ یوں پاکستان نے کرکٹ کے ہونہار اور صلاحیتوں سے بھرپور کھلاڑی پیدا کئے جنہوں نے نا صرف پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا بلکہ کرکٹ کی ترقی و ترویج اور بہتری کیلئے بھر پور کردار ادا کیا اور کر رہے ہیں۔ آج پر امن کرکٹ جن غیر جانب دار امپائرز کی وجہ سے ہو رہی ہے اس کا سہرا پاکستان کے ایک بہترین الراؤنڈر اور نامی گرامی کپتان عمران خان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
2001 میں جب پاکستانی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر گئی تو دیگر کھلاڑیوں کیساتھ مصباح الحق چنے گئے اور اس ٹیم کا حصہ بنے، اس ٹیم میں پانچ ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھنا تھا ان میں سے ایک مصباح الحق بھی تھے۔ مصباح اس سیریز میں کوئی متاثر کن کارنامہ نہیں دیکھا سکے اور منظرِ عام پر جلوہ گر نا ہوسکے یہ وہ وقت تھا جب ٹیم میں محمد یوسف، انضمام الحق اور یونس خان جیسے ستارے موجود تھے۔ مصباح الحق کو جگہ بنانے کیلئے بہت محنت کرنی تھی اور وہ کہیں کہیں سننے اور دیکھنے کو ملتے تھے۔
پاکستانی کرکٹ پر 2009 میں کرکٹ کی تاریخ کا بدترین سانحہ پیش آیا جب پاکستان کا دورہ کرنے والی سری لنکن کرکٹ ٹیم کو لاہور میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔دورہ کا ایک ٹیسٹ میں قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جا رہا تھا کہ دہشت گردوں نے سری لنکن ٹیم پر گھات لگا کر حملہ کیا مگر اللہ جسے رکھے اسکا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ سری لنکن ٹیم کو پاکستانی بس ڈرائیور مہر محمد خلیل کی بہادری کی بدولت نئی زندگیاں ملیں اور انہوں نے خلیل کی بہادری اور فوری ممکن اقدامات کی تعریفیں بھی کیں۔ اس واقع کی پیشِ نظر پاکستان پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے تاحال بند پڑے ہیں۔ جس کا تمام تر سہرا ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو جاتا ہے کہ وہ اپنے عزائم میں سرخ روح ہوا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے نقصان اٹھایا مگر اس سے کہیں گنا زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا اگر پاکستان کرکٹ ٹیم کی عملی کارگردگی اچھی نہ ہوتی۔ مصباح الحق 2001 کے بعد 2007 میں پہلے ٹی 20 ورلڈکپ کیلئے جانے والی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے اور یہ ورلڈ کپ جیسے انکے لئے “رن وے” ثابت ہوا پھر مصباح الحق نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ویسے بھی یہ ٹیم میں ملنے والی یہ جگہ ان کے کیلئے اپنے آپ کو ثابت کرنے کیلئے آخری موقع تھا مگر قدرت نے تو کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا تھا، مصباح نے ٹیک آف کیا اور شہرت کی بلندیوں کو چھونا شروع کردیا۔ مصباح اپنے ساتھ کرکٹ میں بردباری اور محنت ساتھ ساتھ لے کر آئے اور آخیر تک اسے ساتھ رکھا۔ پہلے مصباح نے ٹی 20 کے بعد ایک روزہ کھیلاوں میں اور پھر ٹیسٹ میں اپنی مستند جگہ بنائی۔ مصباح نے ٹی 20 کے ماہر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا اور پھر ٹیسٹ کرکٹ کے میدانوں میں مصباح کا طوطی بولنے لگا۔ مصباح کا جادو ایسا چلا کے ان کو پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت سونپی گئی جو انہیں آہستہ آہستہ ملی پہلے ٹیسٹ میچوں میں انہوں نے اپنی قیادت کا لوہا منوایا پھر وقت اور قدرت ان پر مہربان ہوئی پہلے ایک روزہ اور پھر ٹی 20 کی قیادت کا سہرا بھی ان کے ماتھے پر بندھا۔
مصباح کا شمار پاکستان کے ان گنے چنے کھلاڑیوں میں کیا جاسکتا ہے جو بین الاقوامی میعار کی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل تھے جس کی ایک وجہ انکا بھرپور تعلیم یافتہ ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ شائد یہی وجہ رہی ہوگی کہ ان دورِ اقتدار میں کسی قسم کا کوئی ایسے تنازع نے بھی سر نہیں اٹھایا جو پاکستان کرکٹ کیلئے باعثِ شرمندگی بنا ہو۔ مصباح جہاں آفریدی جیسے کھلاڑی کی موجودگی میں بھی چمکتے رہے، مصباح یونس خان جیسے اپنے دور کے مایہ ناز کھلاڑی کو بھی کھلاتے رہے تو دوسری طرف انکی قیادت کا اور انکی بلے بازی کا رنگ اظہر علی، اسد شفیق اور بابر اعظم پر خوب چڑہا انہوں نے سرفراز کو بطور کپتان تیار کرنے میں یقیناً کرکٹ بورڈ کے علاوہ خود سرفراز کی بھی مدد کی۔ مصباح نے اپنا تعارف لمبے لمبے چھکے لگانے والے بلے باز کے طور پر کروایا اور پھر دنیا نے مصباح کو “ٹک ٹک” کے لقب سے بھی خوب نوازہ اس ٹک ٹک کرنے والے بلے باز نے آسٹریلیا جیسی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے ٹیسٹ کرکٹ کا دوسرا تیز ترین سو رنز کی باری کھیلی اور اسی ٹیم کے خلاف تیز ترین پچاس رنز بنانے کا بھی ریکارڈ بنایا۔ مصباح الحق کا وکٹ پر کھڑے ہونے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ سامنے والی ٹیم کا حدف مصباح کے سامنے کھڑے ہونے والا بلے باز ہوتا تھا۔ مصباح نے ہمشہ ٹیم کی رہنمائی سامنے سے کی اور ٹیم کیلئے کھیلے اور اکثر تو تنہا ہی مخالف بولروں سے مقابلہ کرتے رہے۔
دنیائے کرکٹ میں بہت کم ایسے کرکٹر گزرے ہونگے جنہوں نے ہر طرز کی کرکٹ میں اپنے جوہر دیکھائے اور اپنا آپ منوایا اور اپنے بورڈ کو یہ احساس بھی دلایا کہ کھلاڑیوں کو موقع دینا ہے تو صحیح طرح سے دو ورنہ کبھی مت دو۔ مصباح کی ایک اہم ترین خوبی یہ رہی کہ وہ اپنے مکمل کیرئیر میں کبھی “ان فٹ” ہو کر ٹیم سے باہر نہیں ہوئے۔ مصباح کو اپنے پورے کیرئیر میں بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرناپڑا، مگر انہوں نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو اصلاح کے ذمرے میں لیا اور اپنی کارگردگی سے اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔
مجھے یہ لکھنے میں فخر ہے کہ میں نے مصباح کا دور دیکھا اور وہ دور دیکھا جب مصباح نے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ نا ہونے کے باوجود پاکستان کو دنیائے کرکٹ میں ٹیسٹ کی پہلی پوزیشن پر پہنچایا اور ان تمام سازشیں کرنے والوں کے منہ پر کالک مل دی جن کا 2009 کے بعد یقیناًیہ سمجھنا ہوگا کہ اب تو پاکستانی کرکٹ کا ڈبہ گول ہوجائے گا۔ مگر قدرت جو ہر شے پر قادر ہے پاکستان کو مصباح الحق جیسا “مردِ آہن” دیا جس نے کبھی بھی پاکستان کو اور پاکستانی کرکٹ کر نیچے نہیں آنے دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرت نے مصباح پر خصوصی عنائتیں کیں مگر مصباح بھی اس داد کہ مستحق ہیں کہ انہوں نے کبھی غیر پیشہ ورانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور ٹیم کے نظم و ضبط کو مثالی بنایا اور مصباح نے ایک مثال یہ بھی قائم کی کے “عمریں جذبوں کے بیچ نہیں آتیں”، مصباح اپنی ریٹائرمنٹ تک بڑہتی عمر کے ساتھ دنیائے کرکٹ کے “فٹ ترین” کھلاڑی تھے (ماشاءاللہ)۔ انہوں نے اپنے ساتھ رہنے والے اور کھیلنے والوں کیلئے عملی اور مثالی دور گزارا ہے۔
ہار جیت کسی بھی کھیل کا حصہ ہوتی ہے مگر ایسی ہار جس میں آپ اپنا حوصلہ اور ہمت ہار جاؤ ناقابلِ تلافی ہوتی ہے، یہ مصباح کا خاصہ تھا کہ ہار کہ بعد عزم و حوصلہ ناصرف اپنا بلکہ ٹیم کے دوسرے کھلاڑیوں کا بھی بڑھاتے رہے۔ مصباح صحیح معنوں میں حوصلہ افزائی کی افادیت سے واقف تھے اور یہ اسی خوبی کی بدولت چڑیا کے بچے کو بھی چیل سے لڑوا سکتی ہے ۔ پاکستانی کرکٹ کیلئے گرانقدر خدمات کے اعتراف میں مصباح الحق کو 2014 میں “پرائڈ آف پرفارمنس” کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2016 میں مصباح الحق کو بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے “اسپرٹ کرکٹر” آف دا ائیر کا ایوارڈ دیا۔ مصباح پاکستان کہ واحد کپتان ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کو پہلی پوزیشن تک پہنچایا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا گرز وصول کیا۔
یہ لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہور ہی کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں اور نا رہنے والوں کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اب دیکھئے گا اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ مگر دعا گو ہیں کہ مصباح جس مستقل مزاجی کا پودا لگا گئے ہیں انشاء اللہ وہ جلد ہی ایک تناور درخت بن کر پاکستان کی ٹیم کو بلندیوں پر لے جائے گا اور ہم بطور قوم اپنے ہیروز کو انکے جیتے جی خراج عقیدت پیش کرنا شروع کردینگے۔
پاکستان کی ٹیم ایک عرصے بعد مصباح الحق کے بغیر ایک بڑے بین الاقوامی مقابلوں (چیمپینز ٹرافی) میں شرکت کیلئے برطانیہ جا رہی ہے یقین ہے کہ پاکستان کے ڈریسنگ روم اور میدان میں پاکستانی کھلاڑی اپنے قائد “مردِ آہن” کی موجودگی کو محسوس کرتے رہینگے اور یہ عمل اس وقت تک جاری و ساری رکھینگے جب تک کہ پاکستان کا ایک ایک کھلاڑی دنیائے کرکٹ کا “مردِ آہن” نہیں بن جاتا۔ شکریہ مصباح الحق : ہم آپ کو سیلیوٹ پیش کرتے ہیں۔