ہوو (جیوڈیسک) مصباح الحق نے شکستوں کے داغ کارکردگی سے دھونے کی ٹھان لی، قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان کا کہنا ہے کہ طویل عرصے بعد انگلش کنڈیشنز میں بڑا امتحان ہوگا، صلاحیتیں منوانے کا اچھا موقع بھی مل گیا، بیٹسمین ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کریں تو بولرز فتوحات کا راستہ بنا سکتے ہیں،محمد عامر پختہ ہوچکے، ہزاروں تماشائیوں کی فکر کرنے کے بجائے صرف کھیل پر توجہ مرکوز کریں تو کلیدی کردارادا کریں گے۔
ہیڈ کوچ مکی آرتھر کا کہنا ہے کہ سہل پسندی کا شکار ہونے کی غلطی نہیں کرسکتے، بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ میں بہتر معیار پر اطمینان کا موقع نہیں آیا، ٹیم کو سفر جاری رکھنا ہوگا۔تفصیلات کے مطابق 2010 میں اسپاٹ فکسنگ کیس نے پاکستان ٹیم کو مسائل کے گرداب میں دھنسا دیا تھا، مصباح الحق کی قیادت میں ساکھ کی بحالی کا سفر شروع ہوا اور بتدریج بہتری آتی گئی۔
ایک انٹرویو میں ٹیسٹ کپتان نے کہاکہ اس اسکینڈل کے بعد قومی کرکٹرز متحد ہوکر انتہائی مشکل صورتحال سے نکلنے میں کامیاب رہے،ہر کسی نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا، ہم نے گذشتہ 6برس میں بہترین کام کیا جس کا سہرا کھلاڑیوں کے سر ہے۔ یاد رہے کہ اسپاٹ فکسنگ کیس کے بعد دونوں ٹیموں نے 2 سیریز یواے ای میں2012 اور 2015 میں کھیلیں جس میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی،گرین کیپس کا اس ناخوشگوار واقعے کے بعد یہ پہلا مکمل دورئہ انگلینڈ ہے۔ مصباح الحق نے سیریز کو 6 سال قبل لگے داغ دھونے کیلیے بہترین موقع قرار دیا،انھوں نے کہا کہ طویل عرصے بعد ہمارے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے لیکن بطور کپتان میرے اور ٹیم کیلیے ان کنڈیشنز میں کارکردگی دکھانے اور اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع بھی ہوگا۔
انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے ٹورز میں ٹیم میں حقیقی طور پربہتری آتی ہے،2010 کا ٹور بھی مشکل تھا لیکن اظہر علی جیسے کھلاڑیوں نے مشکل حالات میں اچھا پرفارم کیا۔ کپتان نے کہا کہ اگر ہم اسکور بورڈ پر اچھا مجموعہ سجانے میں کامیاب ہوں تو بولرز فتح کا راستہ بنا سکتے ہیں، ہمیں بیٹنگ یونٹ کے طورپر ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے میزبان ٹیم کو اچھا ہدف دینا ہوگا۔ مصباح الحق نے تسلیم کیا کہ وہ ابتدا میں اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں سزا مکمل کرنے والے محمد عامر کی واپسی کے حق میں نہیں تھے، انھوں نے کہا کہ کچھ چیزیں آپ کے کنٹرول میں نہیں ہوتیں، رائے عامہ تھی کہ پیسر کو ایکشن میں نظر آنا چاہیے، ہر کوئی انھیں دوبارہ کھیلتے دیکھنا چاہتا تھا۔
پی سی بی نے آئی سی سی کی حمایت سے انھیں ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا، اب میں بھی بحالی کے عمل میں ان کی بھرپور مدد کررہا ہوں، موجودہ صورتحال میں پیسر کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ ہزاروں تماشائی ان کے حوالے سے کیا کہتے ہیں، عامرکے پاس کھیل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے آپ کو ثابت کرنے کا بہترین موقع ہے، پیسر نے ڈومیسٹک کرکٹ کے بعد لیگز اور ورلڈ ٹوئنٹی20 سمیت محدود اوورز کے میچز میں فلیٹ پچز پر بھی اچھی کارکردگی دکھائی، انھوں نے سوئنگ سمیت بیٹسمینوں کو پریشان کرنے کے تمام حربے آزمائے ہیں، 2010کی نسبت مزید پختہ بھی ہو چکے۔
پوری امید ہے کہ ٹیم کیلیے کلیدی کردارادا کرینگے۔ ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے کہا کہ ٹیم کو کنڈیشننگ کیمپ کے بعد پہلے وارم اپ میچ میں بھی اچھی پریکٹس حاصل ہوگئی، سمرسٹ کیخلاف کھیلنے کا تجربہ مفید رہا، ٹیسٹ سیریز سے قبل اور اس کے دوران بھی ہمیں بہتری کی جانب سفر جاری رکھنا ہے، کسی سہل پسندی کا شکار ہونے کی غلطی نہیں کرسکتے، بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ میں بہتر معیار پر اطمینان کا موقع نہیں آیا، ابھی تک جو کچھ حاصل کیا اس کو عروج کی جانب لے کر جانا ہوگا۔