تحریر : ابن ریاض ہماری نظر سے ایک خبر گزری جس کا حوالہ ایک معتبر اخبار ہے کہ لاہور میں مصباح نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اپنی ون ڈے ریٹائرمنٹ واپس لینے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ تحریک ایک سیاسی جماعت کے قائدسے ملی ہے جنھوں نے گذشتہ سال اناسیویں دفعہ پارٹی قیادت چھوڑنے کے بعد واپس لی ہے۔ ہمیں یہ خبر فیس بک پر پوسٹ ہوئی ملی اور ایسی خبروں کی تردید و تصدیق مشکل ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں عمومًا افواہ ہی حقیقت بن جاتی ہے ۔بہرطور اس میں تو کلام نہیں کہ مصباح کی دلیل میں وزن ہے۔اچھی بات کہیں سے بھی لی جا سکتی ہے۔ اہم یہ ہے کہ کیا کہہ رہا ہے نہ کہ کون کہہ رہا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ مصباح الحق کی نظر ملک کے ممتاز رہنما پر پڑی ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی مشہور ہیں۔
مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ لندن میں انھیں کچھ ہو جائے تو پاکستان بند ہو جاتا ہے۔ انھیں پاکستان کو بازیاب کروانے کے لئے اپیلیں کرنی پڑتی ہیں۔منتظم کے طور پر ایک الگ ہی حیثیت ہے ان کی کہ جس کی برابری کوئی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بیرون ملک سے اپنی جماعت کو یوں چلاتے ہیں کہ کوئی پر نہیں مار سکتا۔ہر معاملے میں ان کی بات حرف خر قرار پاتی ہے۔ تاہم فراخ دل اور وسیع القلب اتنے کہ کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ج کل کراچی میں فوجی اپریشن کے حق میں بیان دینے کو اپنی غلطی قرار دیتے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کی ایک خاتون سے معافی طلب کر چکے ہیں۔
ہر ظلم بڑی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے سہتے ہیں۔نہایت خداترس ہیں۔ ہر کسی کو معاف کر دیتے ہیں خواہ اگلا معافی مانگے نہ مانگے۔ یہ تو معاف کر دیتے ہیں مگر تقدیر معاف نہیں کرتی۔بغاوت کرنے والوں اور مخالفین کی اکثر بوری بند لاشیں ملتی ہیں۔اس پر انھیں بلک بلک کر روتے پایا جاتا ہے۔ لوگ دل و جان سے انھیں چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ تو کمبل کو چھوڑتے ہیں مگر کمبل انھیں نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ عوام کے پر زور اصرار پر اور ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میںانھیں یہ طوق طوہًا و کرہًا اپنے گلے میں ڈالنا پڑتا ہے۔
Dollar
مال و دولت سے انھیں سر و کار نہیں۔ ملا ملا نہ ملا نہ ملا۔ مگر ان کے معتقدین لاکھوں ڈالر انھیں ہر ماہ بطور نذرانہ بھیجتے ہیں۔لندن کے ایک فلیٹ میں درویشانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔فلیٹ بھی انتہائی سستا ، محض چند ملین پائونڈز کا۔ واحد سیاست دان ہیں جو کہ اچھی موسیقی کے دلدادہ ہیں۔اب تو پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے جلسوں میں باقاعدہ کنسرٹس کرتی ہے مگر اس کے لئے انھیں کرائے کے گلوکاروں کی مدد لینا پڑتی ہے مگر قائد تحریک یہاں بھی بازی لے گئے۔ انھیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے ان کی واز میں درد اور سوز بدرجہ اتم رکھا ہے ۔ساتھ ہی موسیقی کا ذوق بھی۔ سو وہ خطاب کے دوران اپنے سامعین کو اپنے ہی واز میں گنگنا کر محظوظ کرتے ہیں۔ اس سے سامعین کے ذوق کا سامان بھی ہو جاتا ہے اور پارٹی کو کچھ دینا بھی نہیں پڑتا۔
عہدہ چھوڑ دینا اور پھر واپس لینا تو اقائد تحریک کا استحقاق ہے اور اس پر وہ مصباح کے خلاف قانونی چارہ گوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ اگر مصباح نے ان سے اجازت لے کے بیان دیا ہے تو پھر یہ تو بہت نیک شگون ہے۔امید ہے کہ انھوں نے اپنے قائد کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لی ہو گی۔مصباح کی مقبولیت تو ان کے عشر عشیر بھی نہیں۔ تاہم اب وہ قائد تحریک کے سپاہی بن گئے ہیں ۔اب غیبی قوتیں ان کی مدد کے لئے کمر بستہ ہو جائیں گی۔اب وہ تا عمر ٹیم کے کپتان رہیں گے۔ اگر وہ تنگ کر چھوڑنا بھی چاہیں تو بورڈ نہیں مانے گا۔اگر بورڈ مان بھی جائے تو کھلاڑی ہڑتال پر چلے جائیں گے۔خر کار مصباح کو ریٹائرمنٹ اور کپتانی لینی ہی پڑنی۔
قائد تحریک کی مانند مصباح کے پاس بھی تجربے کی کمی نہیں۔ پانچ سال سے قومی ٹیم کے قائد ہیں۔ ہر قسم کے حالات میں میچ ہارنے کا جتنا انھیں تجربہ ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس کے علاوہ مطلوبہ رن ریٹ کو دگنا کرنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں سو ہم مصباح کی واپسی کی پرزور حمایت کرتے ہیں۔تا ہم سکندر بخت کو کون سمجھائے گا؟ انھوں نے تو مصباح کے کہنے پر مٹھائی بھی بانٹ لی۔ کیا پتہ وہ پیسے مانگنے پر تل جائیں۔کم از کم بھی دو چار کروڑ تو بن جائیں گے۔اتنی تو مصباح کی فیس بھی نہیں ہونی۔ مصباح کو تو اپنے قائد کے مثل معافی مانگنی پڑ جانی۔ورنہ پھر تحریک کے فنڈ سے سکندر بخت کو پیسے دے دیں۔ دوسری صورت میں ہم سکندر بخت کی سلامتی کے لئے دعا گو ہیں۔