تحریر : شہزاد سلیم عباسی سوشل میڈیا ہو یا کوئی دوسرا ذرائع ابلاغ کا ادارہ، سب کو فریڈم آپ سپیچ کے تحت بات کرنے کا مکمل آئینی و قانونی حق ہے لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ہم اس نعمت کبری کا غلط اور بے ہنگم استعمال کردیں ۔ آج ہمیں ہر قسم کی خبر کا ذریعہ سوشل میڈیا ہی لگتا ہے اور بسا اوقات ہم الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ سوشل میڈیا پر یقین رکھتے ہیں کہ اب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا والے بھی خبریں، واقعات ، حقائق اور پروگرامات سوشل میڈیا سے ہی ڈکٹیشن لے کر کرتے ہیں۔ ایان علی کیس ہو یا ، قطری خط ، ممتاز قاردی کا مسئلہ ہو یا پی ایس ایل،غرض پاکستانی اور بین الاقوامی سیاست کے پیچ و خم اور روشن و تاریک لمحات سب میں سوشل میڈیا کا انتہائی اہم کردار ہے۔ہزاروں قسم کے واقعات ایسے ہیں جو دنیا کو صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلتے ہیں۔ ایک شخص گھر، دفتر، کھیت، گاڑی ، گائوں اور شہر کہیں بھی بیٹھے ایک واقعہ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو کر پوری دنیا سے کروڑں پسندیدگی و ناپسنددیدگی کے تبصرے حاصل کرکے بڑے پراجیکٹس سائن کرلیتا ہے اسکی حالیہ مثال” چائے والا” ہے ۔ احتیاط طلب پہلو یہ ہے کہ اس کے استعمال کے کچھ طریقے کچھ سلیقے مرتب ہوں جو گستاخی رسولۖ سے لیکر ہرقسم کے برقی جرائم پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کاروائی کر کے مجرم وملز م کو قرار واقعی سزا دیں۔
ٹیکنالوجی کو ختم کرنا کسی چیز کا حل نہیں ہے بلکہ بھینسا، روشنی، دوسرے پیجز یا غیر وں کے پجاری نوسرباز جو مذہبی آزادی کو سلب کرنے پر یقین رکھتے ہیں، انہیں قانون کی آہنی گرفت میں لاکر قانون پرعمل داری سے مسائل کا حل ممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ جب کوئی عیسائی ، یہودی، سکھ یا کسی دوسرے مذہب کاماننے والا جب اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق ٹوپی ، پگڑی پہنتا ہے یا داڑھی رکھتا ہے تو وہ عیسائی ، یہودی سکھ یا کسی دوسرے مذہب کا پیروکار ہی کہلاتا ہے لیکن جب کوئی مسلمان اپنے پیارے نبی ۖ کی سنتوں کو بجا لانے کی سعی اکبر کرتا ہے تو اسے پوری دنیا میں دہشت گردی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں بھی داڑھی ، پگڑی، ٹوپی ، مدرسے اور مسجد کو دقیانوسی اور کم تر گردانا جاتا ہے۔ اسلام آبا ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے گستاخوں اور محمد ۖ کے خلاف نازبیا لغویات بکنے اور سوچ رکھنے والوں کو جو سبق دیا ہے یقیناََ عدلیہ کا یہ حکم تاریخ میں جلی حروف میںرقم ہوا کرے گا۔
اب مسئلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا کیو نکہ قانون توہین رسالت اور عشق رسول کچھ دنوں تک لوگوں میں زندہ رہتا ہے اور پھر وہی کافر ملحد اور غدار وطن کو نبی مہربان کی شان میں ناپاک جسارت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ حقیقت احوال یہ ہے کہ جب تک ہم اس قانون کو اتنا مضبو ط نہیں کریں گے کہ کوئی بھی ظالم ہمارے پیارے آقاۖ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے سے پہلے سو بار سوچے ، تب تلک کچھ حاصل حصول نہیں ہوگا۔ حکومت کو اب ان گستاخ بلاگرز اور گستاخ ذہن رکھنے والی شخصیات کے خلاف سخت ایکشن لینا ہوگا کیونکہ یہ دلخراش پہلوپوری دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو خوفناک اذیت سے دوچار کررہا ہے۔حضور ۖ صرف دیوبندی ، بریلوی، سنی تحریک، عالمی مجلس ختم نبوت، جماعة الدعوة ، کسی دوسری دینی جماعت ، کسی سیاسی پارٹی ، پاکستان ، اوآئی سی یا اسلامی ممالک کے لیے رحمت للعالمین نہیں ہیں بلکہ یہ تو پوری امت مسلمہ کا مشترکہ اثاثہ اور ماڈل ہیں اور بے شک ہم محمد مصطفی کے ذات اقدس کے بناء تہی دامن ہیں اور کل قیامت کے دن اسی کی شفاعت کے منتظر ہوں گے۔
Imran Khan
لفظ ”پھٹیچر” سے بدنام عمران خان اورطعنہ زنی کرنے والے جاوید لطیف اور لڑاکو مراد سعید کو سمجھنا چاہیے کہ جن لوگوں نے انہیں آج اسمبلی میں کھڑا کیا ہے وہ ان سے زیادہ لائق فائق اور اہل ہیں اس لیے پوری دنیا کے سامنے قوم کا تماشا مت بنائیں، اپنی زبانوں کو لگام دیں، اپنے اخلاقیات کو سنواریں اور خدا را اپنے دین اسلام اور آبائو اجداد سے کچھ سبق سیکھیں۔ قوم کے خیر خواہ ممالک ہر حال میں دس سال میں ایک بار مردم شماری ضرور کراتے ہیں جس سے لوگوں کی تعداد اور انکے بارے میں مکمل کوائف اور معلومات جاننے کا موقع ملتا ہے ۔ یہ ڈیٹا اور مواد معاشی منصوبہ بندی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس سے جہاں ملکی آبادی کا انداز ہ ہوتا ہے وہاں قومی ضروریا ت اور شرح نمو کی جانکاری بھی ملتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم پچھلے دو عشروں سے نام نہاد دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اس لیے ہماری ہر چیز تاخیر کا شکار ہے اور صدافسوس ہمیں اس کا خمیازہ مال و جان کی صورت میں بھگتنا پڑھ رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل باجوہ( چیف شماریات )کی زیر نگرانی 19 سال بعد خدا خدا کر کے پاکستان میںچھٹی خانہ و مردم شماری کی راہ ہموار ہوئی ہے جو کہ اس حکومت کا ایک احسن قدم ہے جسے سراہنا چاہیے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب کی بار جب ہم مردم شماری کریں توجہاں ہم صحیح اعداد وشمار، دہری شہریت کے حامل افراد کی جانچ پڑتال، افغان مہاجرین، فاٹا ، آئی ڈی پیز کا درست ریکارڈ، شفافیت، سیکورٹی،مردم شماری کا تسلسل، قومی و صوبائی حلقوں کی نشتوں کا تعین، نئی حلقہ بندیوں کا ادراک اور دوسری چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھیں وہاں قوم کے حقیقی خادموں کی طرح صاحب اقتدار” جو کہ خود کو عقل ودانش اور فہم و فراست کا کل سمجھتے ہیں۔
اللہ سے وعدہ کریں کہ اس باریہ مردم شماری مملکت خداداد کے باسیوں کی تقدیر بدلنے کے لیے بنیاد فراہم کرے گی اور حکومت اس مردم شماری کے نتیجے میں ایسے قوانین مرتب کریگی کہ جس سے حلقے کا عوامی نمائندہ ارض وطن کے ہر باسی کی تعلیم وصحت ، پانی اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات کی پیاس بجھانے کی حتی الوسع کوشش کریگا۔