تحریر : شاہ فیصل نعیم یہ مغرب کے بعد کا وقت ہے اور لوڈشیڈنگ کا دور دوراں ہے میں موبائل کی لائٹ جلائے اخبار پڑھ رہا ہوں، ہاسٹل کا کلرک اخبار اسٹینڈ ز سے اخباریں اُتارنے لگتا ہے۔میرےلیے یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ اخبار رات بارہ بجے کے بعد اُتارے جاتے ہیں۔مجھے سے نارہا گیا تو میں نے پوچھ لیا: “بابا جی ! آپ یہ اخبار ابھی سے کیوں اُتار رہے ہیں۔۔۔۔۔ابھی تو وقت نہیں ہوا”؟ بابا جی کا موڈ کچھ ٹھیک نہیں تھا : “ٹھیک ہے میں اخبار نہیں اُتارتا ۔۔۔۔۔۔مگر تم یہ ذمہ داری لو کہ ہاسٹل میں رہنے والے لوگ اس کولائٹ آنے تک یہاں باقی رہنے دیں گے”۔ “بابا جی آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں”؟ وہ اور غصے سے بولا: “میں وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو روز یہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔جیسے ہی لائٹ بند ہوتی ہے ۔۔ بچے بجائے یہاں رک کر اخبار پڑھنے کے ۔۔۔۔پھاڑکر کمروں میں لے جاتے ہیں”۔ “میں آپ کو اخبارپڑھنے سے نہیں روک رہا ۔۔۔۔۔۔آپ سٹور میں بیٹھ کے پڑھ لو ۔۔۔۔ہاں اگر یہاں پڑھنی ہے تو واپسی کی ذمہ داری آپ کی ہوگی “۔ ایسے ہی کئی اور واقعات میری نظروں سے گزرے ہیں جنہیں میں آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔کچھ روز قبل میرے ایک دوست نے مجھے ایک تصویر بھیجی تھی جو ہاسٹل کے واش روم سے اُتاری گئی تھی۔ جس کا متن کچھ یوں تھا۔
“گزارش ہے کہ رفع حاجت کے بعد اپنی یاد گار چھوڑ جانے سے خاندان کا نام روشن نہیں ہوتا، لہذا جو صاحب بھی یوں خاندانی تاریخ مرتب فرما رہے ہیں اُن سے التماس ہے کہ اپنے کیے کرائے پر پانی پھرتے جایا کریں۔ اگر تعمیرو ترتی کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو با امر مجبوری ٹی وی کیمرے نصب کر دیے جائیں گے تاکہ عوام اس معمارِ قوم کو پہچان سکے اور حسبِ توفیق حوصلہ افزائی کرے “۔ اسی تحریر کے نیچے کسی معمارِ قوم نے جوابی حملہ کچھ یوں کیا ہوا تھا: “لوٹے خریدنے کے لیے تو پیسے نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔کیمرے کہاں سے لگواؤ گے”؟ میرا ایک دوست ہے اور کمال کا دوست ہے ۔۔۔۔۔جسے کہتےنہیں یاروں کا یار ۔۔۔بالکل ویسا ہی ۔۔۔۔مالی حالات اُس کے کچھ خاص نہیں ہیں۔۔۔۔مگر جتنا خدا اُسے دیتا ہے وہ اُس میں بہت خوش رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ایک دن میں کمرے میں جارہا تھا تو راستے میں ملاقات ہو گئی ۔۔۔۔وہ کچھ پریشان دکھائی دیا میں نے پوچھا تو کہنے لگا: “شاہ جی ! پریشان کیا ہوناہے ۔۔۔۔۔کل ایک نئی شرٹ لے کر آیا تھا ۔۔۔۔۔دھونے کے بعد دھوپ میں ڈال رکھی تھی کسی کمینے نے چوری کر لی ہے”۔
ہاسٹل میں موجود مسجد کے دروازے پر کسی بھائی نے تنگ آکر یہ تحریر چسپاں کردی تھی۔ “جوتے چُھپانےکی رسم شادی بیاہ کے وقت سالیاں ادا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔جو کے ہمارے معاشرے میں ایک مقبول رسم ہے ۔۔۔۔مگر یہی رسم کچھ لوگ مسجدوں میں ادا کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جس کے فروغ کا عالم یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔اس رسم کے سدِباب کے لیے میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لوگ جو یہ رسم ادا کرتے ہیں اُن سے گزارش ہے کہ بغیر بات، چیت اور مشورے کے ایسے رشتے بنانے اور رسمیں ادا کرنے سے باز رہیں”۔ منجانب: جوتے چوروں کے ہاتھوں تنگ ایک مظلوم جب سے حکومت نے بچوں کو لیپ ٹاپ دیے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہاں وہ لوگ جن کو لیپ ٹاپ نہیں ملے ۔۔۔وہ اپنے غصے کا اظہارکچھ ایسے کرتے ہیں کہ جن کومل گئے ہیں اُن کے لیپ ٹاپ چُرا لیتے ہیں(ایسے چوروں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں لیپ ٹاپ مل چکے ہیں مگر وہ کمینے پن کے ہاتھوں مجبور ہیں)۔ان جیسے لوگوں سے ستائے لوگ اپنے جذبات کا اظہار مختلف تحریروں کی شکل میں کرتے رہتے ہیں جو ہوسٹل کی راہداریوں میں جگہ جگہ چسپاں ملتی ہیں۔اُن میں سے ایک دو میں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔
Laptop Theft
یہ تحریر اخبار اسٹینڈ کے سامنے والی دیوار پر لگائی گئی تھی: “میں کل ظہر کے بعد کھانا کھانے گیا ہوا تھا اور روم میں میرا لیپ ٹاپ اور موبائل پڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔کسی دوست نے تالا توڑ کر ۔۔۔۔۔لیپ ٹاپ اور موبائل اُٹھا لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔بھائی میں ایک غریب طالب ِ علم ہوں،لیپ ٹاپ میں میرا فائنل تھیسسز پڑا ہے ۔۔۔۔۔۔اگر وہ وقت پر جمع نا کروایا گیا تو میرا پورا سال ضائع ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ میں خود سے لیپ ٹاپ خرید سکوں۔۔۔۔۔خدا کے لیے مجھے میرا لیپ ٹاپ واپس کردیں ۔۔۔۔۔اگر نہیں کرنا تو کم از کم کسی طرح میرا تھیسسزمجھے بھیج دیں۔۔۔۔میں آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گا”۔ منجانب: نام: ا۔ب۔پ۔ کمرہ نمبر: ج۔ح۔ح۔ یہ ایک لُٹے ہوئے غریب طالبِ علم کی داستان تھی ۔ اب ایک ستائے ہوئے چوہدری کا بیان پیشِ خدمت ہے: “کل 4میں نہانے گیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔کمرےمیں میرے دو لیپ ٹاپ اور ایک ایپل کا آئی فون پڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔جس کسی نے بھی اُٹھایا ہے
وہ شرافت سے کمرے میں واپس دے جائے ۔۔۔۔بصورت دیگر پورے ہوسٹل کی تلاشی لی جائے گی اور جس بندے سے چیزیں برآمد ہوئیں اُس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی اور چھترول الگ سے”۔ منجانب: نام: د۔ڈ۔ کمر ہ نمبر: س۔ش۔ایسے واقعات اور ان کے باعث لکھی گئی تحریریں روز میر ی نگاہوں سے گزرتی ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں ایسی حرکتیں کرنےوالوں میں کتنے ایسے لوگ شامل ہیں جو ملکی حالات اور حکمرانوں پربات کرتے ہوئے سب کے کرپٹ،چور اور رشوت خوار ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور خود کا حال یہ ہے کہ ابھی زمانہِ طالب علمی میں کوئی مقام ابھی تک اُن کو نہیں ملا ۔۔۔۔
کوئی سرکاری عہدے ابھی اُن کی دسترس سے دور ہے مگر اُن کی اخلاقیات اور ایمانداری کا یہ عالم ہے تو جب اُن کے ہاتھ کوئی عہدہ آ جائے گا تو پھر کیا کریں گے؟ میں کسی جاہل یا اُجڈ محلے کی باتیں نہیں کر رہا یہ پاکستان کی ایک قدیم درس گاہ کے ہاسٹلز کا حال ہے جہاں دور دراز سے طلبا و طالبات تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔۔۔اپنے والدین کا پیسہ برباد کرتے ہیں اور اُن کے خوابوں کا خانہ خراب کرتے ہیں اور پکڑنے جانے پر اُن کا اور اپنا منہ کالا کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کا زمانہِ طالب ِعلمی میں یہ حال ہے تو نوکری ملنے پر کیا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لوگوں اگر گھر بار چھوڑ کر اتنی دور آکر بھی چوریاں ہی کرنی ہیں تو پھر اس تعلیم کا کیا فائدہ؟ حکمرانوں کو گالیاں دینے والو اور معاشرے کو بُرا کہنے والو کیا تم نے کبھی اپنے اعمال پر غور کیا ہے ؟ کیا تم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے ؟ تم اس قوم کا مستقبل کو ۔۔۔۔۔خدا نا کرے کے اس قوم کا مستقبل اتنا گھناؤنا ہو۔