تحریر : واٹسن سلیم گل پاکستان میں توہین رسالت کے حوالے سے اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ حالات اور واقعات نے اس قانون کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ گو کہ دنیا بھر میں 54 مسلم ممالک موجود ہیں جن کی مجموعی آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے مگر توہین مزہب کے قانون کے حوالے سے جو خدشات اور تحفظات پاکستان میں ہیں وہ کہیں اور سُننے کو نہی ملتے۔ کیا وجوہات ہیں کہ توہین مزہب کے غلط استمال کے حوالے سے سعودی عرب، ملیشیا، انڈونیشیا، مصر، شام اور بہت سے مسلمان ممالک میں وہ حالات نہی ہیں جو پاکستان میں بنتے جارہے ہیں۔ مزہبی تفریق اور عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
توہین مزہب کے غلط استمال کے شکار بہت سے لوگوں کی طرح مشال خان بھی اس کی بھینٹ چڑھ گیا۔ چند لوگوں نے اپنے طور پر اس پر الزام لگایا ،خود ہی عدالت لگائ اور خود ہی سزا دے دی۔ نظر تو آرہا ہے کہ شاید اس بار حکومت اس مسلئے کی سنجیدگی پر غور کرے گی کیونکہ مشال خان کے کیس پر بھی سیاست کا آغاز ہو چُکا ہے۔ ابھی مشال خان کو تو انصاف ملا نہی مگر ولی خان یونیورسٹی کے نام کو مشال خان یونیورسٹی میں تبدیل کر کے خیبر پختون خواہ کی عوام کو تقسیم کرنے کی سازش شروع ہو چکی ہے اور اس سازش میں الجھ کر یہ کیس کمزور ہو جائے گا ۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ اس قانون کا غلط استمال اس وجہ سے ہوتا ہے کہ لوگوں میں تعلیم کی کمی ہے مگر یونیورسٹی کے پڑھےلکھے طالب علموں اور انتظامیہ نے ایک انسان کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک کیا اس سے تو حیوانیت بھی شرمندہ ہو جائے۔ میں بہت بار لکھ چکا ہوں کے غلط استمال کو روکنے کے لئے حکومت سنجید گی کا مظاہرہ کرے۔ کیونکہ اس سمیت بہت سے قوانین میں ثبوت کی ضرورت ہی نہی ہے۔
آپ میری اس بات پر غور کریں کہ اگر مشال خان کو قتل کرنے والے صرف دو یا تین بالغ مسلمان یہ گواہی دے دیں کہ انہوں نے خود اپنے کانوں سے مشال خان کو توہین کرتے سُنا ہے تو یہ معاملہ خراب ہو جائے گا۔ کیونکہ آسیہ بی بی کے کیس میں یہ ہی تو ہوا ہے۔ کہ آسیہ بی بی کی تکرار ایک مسلمان خاتون سے صرف پانی پینے پر ہوئ۔ جس پر اس خاتون نے دو اور خواتین کو بتایا کہ آسیہ نے گستاخی کی ہے۔ پھر نزدیک کی مسجد کے مولانا صاحب کو شامل کیا گیا اور انہوں نے ایف آئ آر درج کرا دی۔ کیونکہ گواہی ایک مسلمان خاتون نے ایک مسیحی خاتون کے خلاف دی اس لئے یہ قبول کیا گیا کہ مسلمان خاتون سچ بول رہی ہے۔ اور آسیہ بی بی چلاتی رہی کہ میں نے کوئ گستاخی نہی کی بلکہ مجھے مارا پیٹا گیا اور اس کیس میں پھنسا دیا۔ آج بھی آسیہ بی بی کے حوالے سے کوئ ایک بھی ثبوت موجود نہی ہے سوائے زبانی گواہی کے ۔ توہین رسالت کا یہ قانون چاہئے مسیحیوں کے خلاف غلط استمال ہو یا مسلمانوں کے خلاف ،پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ توہین مزہب کا قانون ہونا چاہئے مگر سب مزاہب اور انبیاں اور مرسلین کی توہین جرم کے زمرے میں آنی چاہئے کیونکہ میری دانست میں دنیا بھر میں جتنی توہین مسیح ابن مریم کی کی جاتی ہے وہ کسی اور مقدس ہستی کی نہی ہوتی بلکہ اس حوالے سے عام فلمیں اور ڈرامے بنتے ہیں اور کوئ روکنے والا نہی ہے۔ مگر اس قانون کا غلط استمال صرف پاکستان میں ہی کیوں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ صرف بدیانتی اور انصاف کی عدم فراہمی ہے۔ یہ بات صرف یہاں تک نہی رُکے گی بلکہ نفرت کے بیج سے جو پودا لگایا گیا تھا وہ اب تن آور درخت بن چُکا ہے اور اب اسی نفرت کے پھل کو ہم سب کھا رہے ہیں۔ ہماری منافقت کا یہ حال ہے کہ ہم اقرار بھی کر رہے ہیں کہ اس پھل کے کھانے سے ہمارے خون میں برداشت کا تناسب کم ہورہا ہے اور ہماری شریانوں میں نفرت کا لیول بڑھ رہا ہے مگر پھر بھی ہم اس درخت کو کاٹنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ہم خوفزدہ ہیں کہ اس درخت کے اصلی وارث ہمیں اس درخت کو ہاتھ نہی لگانے دیں گے۔ مگر ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اس درخت کو اپنے آنے والی نسل کو منتقل کرکے ان کے مستقبل کو داؤ پر نہی لگا رہے ہیں کیا مشل خان، شہزاد مسیح، شمع مسیح جیسے حالات ہمارے اپنے بچوں پر نہی آ سکتے۔ میری وفاقی اور صوبائ حکومتوں سے درخواست ہے کہ مل کر اس قانون کی نوک پلک سنواریں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ قومی اسمبلی میں اس قانون پر مزمتی قرارداد پاس کی گئ ہے کیا بات ختم ہو گئ اور کیا ہمیں کسی اور مشل خان جیسے واقعہ کا انتظار کرنا ہوگا۔ غور کریں کہ یہ واقعہ کیوں اور کس وقت ہوا۔
یاد کریں کہ چوہدری نثار کے سوشل میڈیا کے خلاف بیان اور اس پر پابندی کے علان کے بعد سیول سوسائٹی اور آزاد خیال معاشرے کی جانب سے زبردست تنقید کی گئ۔ نظر آرہا تھا کہ فیس بُک پر پابندی کے فیصلے پر وزیرداخلہ کی گرفت کمزور ہورہی ہے اور پھر اچانک مشال خان کو قربانی کا بکرہ بنا کر اس قانون کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ پہلے اسے قتل کیا گیا اور پھر اس کے نام سے جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنا کر توہین آمیز مواد اس میں شامل کیا گیا، یعنی شال خان کے قتل کا جواز بھی دیا جائے اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر پابندی لگا کر پاکستان کا دنیا سے سلسلہ منقطہ کر دیا جائے۔ توہین مزہب کے اصل مجرم وہ ہیں جو جھوٹا الزام لگاتے ہیں کیوں کہ اصل توہین تو وہ خود کرتے ہیں۔ غور کریں کہ رمشا مسیح تو زہینی طور پر اور جسمانی طور پر ایک بچی تھی اس کے تھیلے میں سے ادھ جلے قرانی صفحات نکلے تھے۔ مگر عدالت نے اس بچی کو بے گناہ قرار دیا تھا۔ بعد کی کہانی سامنے آگئ تھی۔ کہ وہ بچی بے قصور تھی۔ مگر وہ بندہ آزاد ہے جس نے وہ قرآنی صفحات اس کے تھیلے میں ڈالے تھے۔ اگر وہ پکڑا جاتا اور سزا ملتی تو مشال خان زندہ ہوتا۔ اس وقت جب میں یہ سطور ٹائپ کر رہا ہوں تو جنگ اخبار کی ایک خبر دیکھی ہے کہ سیالکوٹ ،پسرور میں تین نقاب پوش خواتین نے توہین رسالت کے ایک ملزم کو جو ضمانت پر تھا پندرہ برس بعد گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ 50 سالہ فضل عباس کی نعش پولیس نے اپنے قبضہ میں لے لی ہے اور تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔