تحریر : ظہیر رونجہ بیٹا کھبی کسی چیونٹی کو نہیں مارنا۔۔۔۔۔۔۔! یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک آج تک میرے ذہین میں گھوم رہے ہیں۔جب میں صرف پانچ سال کا تھا زمین پر لیٹ کر چپل اُٹھائے چیونٹیوں کو مارہا تھا کہ اچانک ایک گرج دار آواز میرے کانوں میں پڑی ،بیٹا چیونٹیوں کو نہیں مارو کیا بگاڑ رہی ہیں یہ تمہارا ۔۔؟اٹھو زمین سے شاباش اور چیونٹیوں کو راستہ دو۔۔۔
میں نے سوالیہ نظروں سے امی کو گھورتے ہوئے دیکھا،امی میری طرف ایک پیار بھر ی مُسکراہٹ کے ساتھ مجھے سمجھاتے ہو ئے آگے بڑی۔ بیٹا جس طرح ہم انسانوں کا اس دنیا میں جینے کا حق حاصل ہے ٹھیک اس طرح ان حشرات کو بھی ہے یہ بھی اسی پروردگار کی مخلوق ہیں جس کی ہم ہیں ان کو حقیر سمجھ کر بے گنا ہ ماررہے ہو اس کا جواب تمہیں بارگاہ الہیٰ میں ایک دن ضررو دینا ہوگا کیا اللہ تعالیٰ کے سامنے تم کھڑے رہ پائو گے؟ آج میری عمر32 سال ہے آج ماں کے یہ الفاظ پھر سے میرے ذہین میں یاد بن کر گھومنے لگے ۔جب مشعال خان کو مردان یونیورسٹی میں ایک ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں مشعال خان کی روح نکلنے تک اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ کیا اللہ تعالیٰ مشعال خان کے قاتلوں کو معاف کرے گا یہ قاتل اللہ کے حضور روز حشر میں کھڑے ہوسکے گے میں نے تو صرف ایک چیونٹی کو مارا تھا لیکن ان قاتلوں نے تو ایک انسان کی جان لے لی مجھے تو کپکی طاری ہو گی انسانوں کی شکل میں یہ کیسے درندے تھے جہنوں نے اپنے ہی ہم عمر ساتھی کو قتل کر ڈالایہ بھی تو اللہ کی مخلوق میں سے تھا پھر کیونکر یہ ہوا۔
مشعل خان کو ایک پر ہجوم کے درمیان قتل کردیا گیااور اس واقعے کی ویڈیو بناتے رہے لیکن اس ظلم کے خلاف اپنی آواز باہر نہیں نکالی اور تماشائی بن کر یہ سب منظر دیکھتے رہے۔
کیا ہو گیا ہے آج کے مسلمانوں کو جواپنے ہی خون کے پیاسے پھررہے ہیں ہم تو ویسے ہی آئے دن مر رہے ہیں کھبی دہشت گردی کی زد میں تو کھبی ٹارگٹ کلنگ میں یا توروڈ ایکسیڈنٹ میں اور جو باقی بچ جاتے ہیں وہ منگائی کی چکی میں پیستے رہتے ہیں یہ اذیتیں ،دردناک موتیں دینا ہلاکو اور چنگیزی دور کی باتیں ہیں کیا ہم پھر سے پیچھے کی طرف جارہے ہیں ۔۔؟ نہیں۔۔۔ ہم نہ پیچھے جارہے ہیں نہ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں ہم توجہاں تھے وہی ہیں بس بڑی بڑی عمارتیں ،کشادہ روڈ،نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی لیکن کام تو وہی ہیں جو ہلاکو دور میں تھے کیا فرق رہ گیا ہے ان درندہ صفت انسانوں میں اور مشعال کے قاتلوں میں؟کاش ،ان قاتلوں کی مائوں کی کہی ہوئی وہ باتیں یاد آتی کہ” بیٹا چیونٹی کو نہ مار”۔