زلزلہ کیا ہے۔ زلزلہ زمین کی اوپر والی سطح کی شدید اور ہنگامی حرکت ہے جو کہ اچانک اس کی ٹیکٹونک پلیٹس کے ٹوٹنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کی تاریخ ان قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے جن میں زلزلہ انتہائی دہشت ناک آفت ہے جس کی وجہ سے لاکھوں آبادیاں زمین بوس ہو چکی ہیں اور انسانی آبادی کے بڑے بڑے حصے صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔یہ قدرتی آفت بغیر کوئی پیشگی اطلاع کے اچانک نازل ہوتا ہے ۔ یہ ایسی قدرتی آفت ہے جو انسان کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں دیتی ہے اور لمحوں میں بستی کی بستی صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔
کل سیپہرغالباً 3.15کا وقت تھا جب دوسری جگہوں سمیت کراچی میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے دو بار محسوس کیئے گئے۔ زمینِ خاک کا ہر مکین صرف دس ہی سیکنڈ میں لرز کر رہ گیا، زمین نے گو کہ پوری طرح کروٹ بھی نہ لی تھی کہ ناگہانی موت کا خوف لوگوں کے اعصاب پر سوار ہو گیا تھا، سہمے ہوئے چہروں، چند لفظوں اور سنجیدگی کی شکنوں کو لئے میڈیا کے ہر چینل کا خبر رساں عوام کو زلزلے کی شدت کا بتا رہا تھا۔ یوں محسوس ہوا جیسے کچھ دیر کے لئے وقت تھم سا گیا ہے۔ لوگ ڈر اور خوف کے سائے میں اپنے اور اپنے عزیزوں کے لئے جائے پناہ ڈھونڈنے میں اور خیر خیریت معلوم کرنے میں مصروف دکھائی دیئے۔
مگر یہ بھول گئے کہ بھاگ کر جائیں گے کہاں ، جہاں تک جائیں گے اسی کی سلطنت ہے۔ قدرتی آفت کی پکڑ سے کسی کا فرار ممکن نہیں۔ہفتہ آٹھ اکتوبر 2005ء کو کا سورج بھی جب طلوع ہوا تو قدرت نے یہ سارے تصورات و خیالات ، الزامات اور بد اعتمادیوں کو ایک جھٹکے میں ہی زمین بوس کر دیا تھا۔ ملک کے بالائی علاقوں میں یہ زلزلہ قیامت بن کر آئی تھی اس زلزلے نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کئی دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ ہزاروں افراد بغیر توبہ کے ہی لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ ملک کے کئی شہر تو جیسے تھے ہی نہیں سب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے تھے۔ پہاڑوں نے اپنے ہی لوگوں کو نگل لیا تھا۔
اس قدرتی آفت نے عذابِ الہٰی کی شکل میں شہروں کو نیست و نابود کر دیا ، قوموں کو صفحۂ ہستی سے غائب کر دیا تھا۔کل کے زلزلے نے انسانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔کچھ دیر کے لئے تو سب نے توبہ اور استغفار کا ورد شروع کر دیا تھا۔ اور اللہ رب العزت سے پناہ کے طالب ہو گئے تھے۔ کچھ لوگ یہ بھی تبلیغ کرتے دکھائی دیئے کہ یہ زلزلہ اللہ کی طرف سے ایک جھٹکا ہے مطلب ” مِسڈ کال ” ہے کہ میرے بندوں راہِ راست پر آجائو ، بے حیائی، بے پردگی ، ناچ گانے کو چھوڑ دو اور اللہ کے بتائے ہوئے راستوں پر گامزن ہو جائو۔ ناحق خون بہانا بند کر دو ، ورنہ! کہیں ایسا نہ ہو کہ کل تو اللہ کا بہت کرم ہوگیا ہے دوبارہ اگر ایسا ہوا تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔
Allah
اس سے پہلے کے توبہ کا دَر بند ہو جائے اپنے اعمالوں کو درست کر لو۔ راقم کے خیال میں یہ باتیں بالکل درست کہی گئیں ہیں ۔ ہمارے اعمال اس قابل نہیں کہ ہم بخشیں جائیں، مگر پھر بھی وہ غفور الرحیم ہے اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے۔ اور یہ جھٹکا دے کر اس نے اپنے بندوں کو وارننگ بیل دے دی ہے کہ اب توبہ کر لو اپنے تمام بے ہودہ کرتوتوں سے، اپنی مغربی طرز کی بے لباسی سے، فتنے اور فساد سے تاکہ تم اللہ کے عذاب سے محفوظ رہ سکو۔مایوسی گناہ ہے ، اور کل یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کچھ لوگ اپنی زندگی سے بھی مایوس ہو رہے تھے، مایوسی گناہ ہے دوستو! آپ کے پاس استغفار کی قوت موجود ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک موقعے پر فرمایاتھا:” کہ خود کو استغفار کے زیور سے معطر کر لو تمہیں گناہوں کی بدبو کہیں رسوا نہیں کرے گی”ابنِ کثیر نے ایک تفسیر حدیثِ قدسی کی نقل کی ہے کہ ” میرے عزت و جلال کی قسم! مجھ سے کسی بندے نے پناہ لی اور آسمان و زمین اس کے خلاف ہو گئے تو بھی میں اس کے لئے خلاصی اور کشادگی پیدا کر دوں گا اور میرے جلال و عزت کی قسم! کسی بندے نے میرے غیر کی پناہ لی تو میں اس کے پائوں کے نیچے سے زمین سرکا دوں گا۔”اب فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کہ اقرار کیا جائے یا انکار۔ آج حالت یہ ہے کہ انسان اللہ سے ڈرنے کے بجائے بندوں سے ڈرتا ہے۔ ابھی وقت ہے توبہ کا دَر کھلا ہے۔
تو آیئے توبہ کریں اور یہ عہد بھی کریں کہ یا اللہ! ہمیں توبہ سے پہلے موت نہ دینا۔آج کے حالات ایسے ہیں کہ انسان ، انسان سے ڈرتا ہے ، شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ: حالاتِ شہر کے گمان سے ڈر لگتا ہے آج انسان کو انسان سے ڈر لگتا ہے جانے کب کون کسے مار دے کافر کہکر اب مسلمان کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے کون آئے گا ہمیں پیار سکھانے یارو! وحشتِ حضرتِ انسان سے ڈر لگتا ہے زلزلہ اللہ رب العزت کی طرف سے اپنے بندوں کو وارننگ ہے، کچھ عرصے سے خوفناک زلزلوں کے ذریعے اللہ رب العزت اپنے بندوں کو بار بار انتباہ کر رہا ہے کہ غلط کام ترک کرکے نیکی کی راہ پر چلنے والے بن جائو لیکن اس کے باوجود انسان اس سے سبق نہیں سیکھ رہا۔
اللہ کریم اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہے اور اس نے فرما دیا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے مگر جب یہی انسان اس کے احکامات کی خلاف ورزی کو عادت بنا لے اور گناہوں کی ٹوکری کو اپنے سر پر سجا لے اور نفرت دلوں سے نکل جائے ، اور انسان حد درجہ گناہوں سے مانوس ہو جائے تو اللہ کی طرف سے تنبیہہ کی صورت میں مختلف النوح مصائب اور آفات کے ذریعے خبردار کیا جاتا ہے، انسان کو اسی دنیا میں اپنی اصلاح کے لئے مواقعے فراہم کئے جاتے ہیں لیکن جن لوگوں نے خود اپنے لئے ہلاکت اور عذاب کی راہ کا انتخاب کر لیا ہے وہ ان آفتوں سے کوئی عبرت اور نصیحت حاصل نہیں کرسکتے۔حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گورنروں کو اپنے پیغام میں کہا کہ سنو! اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں۔
Charity
تم لوگ صدقہ خیرات زیادہ کیا کرو، اور استغفار بھی کثرت سے کیا کرو۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کی یہ دعا کثرت سے پڑھا کرو جس کا ترجمہ یہ ہے: ” اے میرے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم تباہ ہوجائیں گیمگر قوم آج کل گانے بجانے کو اپنی زندگی کا اہم جزو بنا چکی ہے،مال و زر کی ہوس نے خاندانی عزت اور وقار کو خاک میں ملا دیا ہے۔ شریف زادیاں بھی اسٹیج پر آکر بے ہودہ رقص و سرور کی محفلیں سجا رہی ہیں، یوں بے حیائی اور بے کچھ حد تک فیشن سے چُور بے لباسی بھی تیزی سے معاشرے میں پھیل رہی ہے۔
حضرت عمر ان بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ایک وقت ایسا آئے گا جب اُمت پر زمین میں دھنسائے جانے اور صورتیں مسخ ہونے اور پتھر برسنے کا عذاب بھی ہوگا۔” اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کب ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان ظاہر ہو جائے گا اور شرابیں پی جانے لگیں گی۔
(رواہ الترمذی)اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کی اصلاح فرما دے اور محض اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو معاف فرما دے۔ اللہ ! تیری رحمت بہت وسیع ہے اور تو بہت مہربان اور کریم ہے۔ اپنے محبوب کی اُمت کے حال پر اپنا خاص رحم و کرم فرما دے۔ قدرتی آفات سے ہم سب کو محفوظ فرما دے اور مرنے سے پہلے توبہ نصیب فرما دے۔ آمین ثم آمین۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی