چیف جسٹس نے حراستی مراکز میں موجود تمام افراد کو طبی سہولتیں فراہم کرنے اور اہلخانہ سے ملاقات کرانے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ میں لاپتا افراد کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے حراستی مرکز میں موجود چونسٹھ افراد کی فہرست عدالت میں پیش کی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ ان لوگوں کے خلاف الزامات ہیں تو چالان عدالت میں پیش کریں تاکہ کسی کو سزا ہونا ہو تو سزا ہو یا بری ہونا ہو تو بری ہو۔ عدالت نے حراستی مراکز میں موجود افراد کے الزامات کی تفیلات طلب کرتے ہوئے سماعت دو اگست تک ملتوی کردی۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے شہباز تاثیر کے اغوا میں مبینہ طور پر ملوث تین افراد کی پولیس حراست میں موجودگی کے انکشاف پرسخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کے لاپتہ ہونے پرعدالت ایجنسیوں کی جانب سے ہی پریشانی کا شکار تھی کہ اب اس میں پولیس ڈپارٹمنٹ کا نام بھی آنا شروع ہوگیا ہے۔ پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ تین افراد ان کے حوالے کیے گئے ۔انہوں نے خود گرفتار نہیں کیے تھے۔
پولیس کو بتایا گیا کہ یہ افراد شہباز تاثیر کے اغوا میں ملوث ہیں۔ انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے ان کی حراست غیرقانونی ہے۔ چیف جسٹس نے معاملے کے دوہری تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ آئی جی پنجاب کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آٹھ روز میں تین افراد کی حراست کئے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کریں جبکہ سیشن جج چنیوٹ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کریں گے۔
اور وہ بھی اپنی رپورٹ آٹھ روز میں عدالت میں پیش کریں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت قانون نے انہیں اس کیس میں بحث کرنے سے منع کیا ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ وزارت دفاع اس بارے میں آئندہ تاریخ پر اپنا وکیل پیش کرے تاکہ وزارت دفاع کا موقف سامنے آئے۔