بلوچستان (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ عدالت اعظمیٰ جبری گمشدگیوں کے مسئلے سے بظاہر پیچھے ہٹ گئی ہے اور اس معاملے پر قائم کمیشن تقریباً غیر فعال ہو چکا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا کہ سن دو ہزار اٹھارہ کے دوران صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی کم از کم 541 رپورٹیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں سیاسی کارکنان، طالب علم، وکیل، صحافی اور قوم پرست تنظیموں سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق کچھ لوگ بازیاب ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ لاپتہ ہو جاتے۔
کمیشن کے چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق پاکستان میں لاپتہ ہونے والے لوگوں میں تین طرح کے افراد ہیں: کچھ لوگ ایسے ہیں جو ناجائز یا غیر قانونی طور پر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ملتی۔ پھر وہ لوگ ہیں جنہیں سکیورٹی ادارے اٹھا کر لے جاتے ہیں جبکہ باقی ایسے لوگ ہیں جو غیر قانونی طور پر حراستی مراکز یا عقوبت خانوں میں بند ہیں۔
پاکستان میں لاپتہ افراد یا جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کروانے کے لیے سرگرم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم سپریم کورٹ میں کئی سو گمشدہ افراد کے مقدمے دائر کر چکی ہے، ’’ہم چودہ سالوں میں اب تک تقریباً 749 کیس عدالتوں میں دائر کر چکے ہیں۔ ہماری تنظیم کو پاکستان بھر سے 2650 درخواستیں موصول ہوئیں ہیں۔ ہماری کوششوں کے بعد حکام نے ساڑھے نو سو لوگوں کا سراغ لگایا جبکہ تین سو ستر کو بازیاب کرایا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ستر کے قریب گمشدہ افراد کی میتیں بھی موصول ہوئیں۔‘‘
آمنہ مسعود کے مطابق اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ بالکل پیچھے ہٹ چکی ہے اور اس نوعیت کے تمام کیسز کمیشن کے سپرد کر دیے ہیں، جس کے کارکردگی تسلی بخش نہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ میں اس کمیشن کی غیر اطمینان بخش کارکردگی پر ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے اور اُسے ابھی تک سنا ہی نہیں گیا۔
جنجوعہ کے مطابق یہ کمیشن آٹھ برس سے چل رہا ہے اور اس کو ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں جاری رکھا گیا ہے اور وہ چئیرمین نیب بھی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اُن سے دونوں ذمہ داریاں نبھانے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
پاکستان میں حکومت نے رواں برس جبری گمشدگیوں کی روش کی روک تھام کے لیے اس میں ملوث افراد کے خلاف ملک کی عام عدالتوں میں ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمات چلانے کی بات کی تھی۔
لیکن آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، ”پچھلے سال آج ہی کے دن ہمارے احتجاج میں انسانی حقوق کی وزیر سیریں مزاری نے وعدہ کیا تھا کہ حکومت جبری گمشدگیاں بند کرانے کے لیے قانون سازی کرے گی۔ کچھ عرصہ ہمارا ان کے ساتھ رابطہ رہا اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تجاویز بنا کر وزارت قانون کو بھیج دیں ہیں لیکن ایک برس گزر جانے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔‘‘
پاکستان میں لاپتہ افراد کا کھوج لگانے کے لیے سن دو ہزار گیارہ میں ایک انکوائری کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2351 افراد، سندھ میں 1571، پنجاب میں 1323 جبکہ بلوچستان میں 449 لوگ لاپتہ ہوئے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مطابق بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کم بتائی جاتی ہے لیکن ان کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔