اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں سیکرٹری فاٹا اور پاٹا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت سترہ جولائی تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے ریویو بورڈ کی تشکیل کردہ رپورٹ بھی طلب کر لی۔ حراستی مراکز میں قید افراد کی اہل خانہ سے ملاقات نہ کرانے پر عدالت کا اظہار برہمی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حراستی مراکز میں رکھے گئے افراد کو بغیر سنے سزائیں دی جاتی ہیں۔ اب یہ کیسز چھپنے والے نہیں ہیں۔ متوازی ٹرابیونل قائم نہیں کیے جاسکتے، ٹرابیونل کا سربراہ سنئیر جج ہوتا ہے۔
ہر کسی کو بٹھا کر ٹرایبونل نہیں بنایا جاسکتا، لاپتہ افراد کا تو نہیں پتا مگر ان کے اہل خانہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد سے متعلق جسٹس منصور عالم کمیشن کی سفارشات پر عملدرامد کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے ارکان منتخب ہو کر آتے ہیں اور قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں۔ آرٹیکل دس کے تحت بنیادی حقوق کی پاسداری ہونی چاہئے۔ فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، حراستی مراکز میں قید افراد کی اہل خانہ سے ملاقات نہ کرانے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 504 افراد حراستی مراکز میں ہیں، معلوم تو ہو کہ کون قیدی زندہ ہے اور کون مرگیا، بتائیں کس کے حکم پر قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات نہیں کرائی جارہی، اسے عدالت میں پیش کیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ فوج اور رینجرز کے خلاف بھی شکایتیں موصول ہوتی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا لاپتہ افراد کیس میں کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، ہر صوبے کو چاہئے تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے عدالت آنے جانے کے اخراجات اٹھاتا، کئی افراد کے کیسز ختم ہو گئے ہیں لیکن انہیں ابھی بھی اہل خانہ سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔عدالت نے سیکرٹری فاٹا اور پاٹا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت سترہ جولائی تک ملتوی کر دی۔
عدالت نے ریویو بورڈ کی تشکیل کردہ رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ عدالت نے لاپتا عبید اللہ اور ملازم حسین سے متعلق کیس کی سماعت انتیس جولائی تک ملتوی کر دی۔عدالت نے آئی جی پنجاب اور خیبر پختونخوا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دونوں لاپتا افراد کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔