اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمار کس دئیے کہ فوجی اہلکار کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہو تو اعلی عدلیہ میں اسے زیر سماعت لایا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو اغوا کرنا اور حبس بے جا میں رکھنا فوج کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8 کا اطلاق آرمی ایکٹ پر نہیں ہوتا، انسانی حقوق کے نام پر آرٹیکل 8 کا اطلاق آرمی ایکٹ پر نہیں کیا جا سکتا، ابراہیم ستی نے کہا کہ فوجی کو صرف فوج ہی زیر حراست رکھ سکتی ہے، آئین کی دفعہ 73 کی رو سے غیر فوجی جرم کے الزام میں بھی فوجی کو حراست میں رکھنے کا اختیار فوج کے پاس ہے۔
اور تعزیرات پاکستان اور حدود قوانین کی سزائیں بھی آرمی عدالت کے اختیار میں ہیں، اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر بھی کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کسی فوجی پر جرم کا الزام عائد کرنے کا اختیار کس کو ہے، ابراہیم ستی نے بتایا کہ فوجی پر الزام پولیس سمیت کوئی بھی ادارہ عائد کرسکتا ہے لیکن تحویل میں لینے کے بعد اسے فوج کے حوالے کرنا ہوگا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ حبس بے جا کی رٹ درخواست کوئی بھی دائر کرسکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا انسانی حقوق اور مفاد عامہ کے معاملے میں اس کے اختیارات پر کوئی قدغن نہیں،عدالتی فیصلے کے مطابق کوئی ادارہ اپنے قانونی اختیار سے تجاوز کرے تو عدالتی کارروائی سے استثنی ختم ہو سکتا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالتی کارروائی نہ کرنے کی پابندی کا استعمال اختیارات سے تجاوز کے لیے نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ ہائی کورٹ فوجی تحویل میں موجود کسی شخص کا پروڈکشن آرڈر جاری کرسکتی ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اغوا کرنا اور حبس بے جا میں رکھنا فوج کا قانونی اختیار نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی کے خلاف ایف آئی آر آرمی ایکٹ ضابطہ فوجداری یا تعزیرات پاکستان نہیں روکتا، یہ واضح ہے۔
آرمی ایکٹ خود توہین عدالت میں ٹرائل کی گنجائش دیتا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا جو آئین اور قانون کہتا ہے اس کے پابند ہیں۔ ایس پی سٹی لاہور شہزاد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ وہ عدالت کے حکم پر لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کررہے ہے۔
میں فون پر وقت مقرر کرکے اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کورآڈنیٹر سے ملاقات کیلئے گیا تھا، تاہم انہوں نے گھنٹوں انتظار کرانے کے بعد ملاقات سے انکار کردیا۔ عدالت نے شہزاد بخاری کے بیان کی روشنی میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سیکریٹری خارجہ اور دیگر حکام سے رابطے کی ہدایت کردی اور تفصیلات طلب کرتے سماعت 16 جولائی تک ملتوی کردی۔