اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی اور بلاگر مدثر نارو کے لاپتہ ہونے سے متعلق کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری، یہ انہی کا کیا کرایا ہے۔
صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اور سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار کی جانب سے عثمان وڑائچ ایڈوکیٹ پیش ہوئے تاہم ایمان مزاری بیماری کے باعث پیش نہ ہو سکیں۔ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری صاحبہ، آپ کو اس لیے زحمت دی کہ ریاست نظر نہیں آ رہی، ملک میں جبری گمشدگیوں کا رجحان ہے، کسی کا لاپتہ ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور کابینہ ارکان لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں، لاپتہ شخص کی بازیابی کیلئے ریاست کا ردعمل غیر موثر ہے، ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی، کوئی بھی متاثرہ شخص آئے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتہ ہو گیا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ آپ نے پہلے بھی قیدیوں کے معاملے پر بلوایا تھا، جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہمارے منشور میں تھا، ہم نے اس بارے میں قانون سازی کی ہے، سینیٹ میں جلد بھجوائی جائے گی، وزیراعظم بننے سے پہلے بھی عمران خان کا اس معاملے پر واضح مؤقف رہا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کسی پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا ردعمل کیا ہو گا؟ پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو پوری مشینری حرکت میں آ جائے گی، ریاست کا ردعمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتہ شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہے، تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں، لاپتہ شخص کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ فیملی کو سنے۔
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ بیان حلفی ابھی تک نہیں ملا، اس کے مطابق اخراجات کی ادائیگی کیلئے کام کریں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ متاثرہ فیملی کو وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں اور کابینہ ارکان سے ان کی ملاقات کرائیں، جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم انہیں ضرور سنیں گے، ہم چاہتے ہیں پہلے ان کیلئے اخراجات کی ادائیگی پر کام کر لیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ لاپتہ شخص کے کمسن بچے اور دادی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے گی، اس سے پہلے آئندہ ہفتے تک ان کیلئے رقم کی ادائیگی کا عمل مکمل کرنے دیں۔
شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ ہماری حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے، جمہوریت میں کسی کو لاپتہ کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔
عدالت نے وفاقی وزیر سے کہا کہ آپ کوشش کریں کہ یہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر واپس آئیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری تو وزیراعظم اور کابینہ ارکان پر آتی ہے، ریاست کی بجائے معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان کیوں نا ادا کریں، تاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا عدالت میں کہنا تھا کہ ایک ہفتے کا مزید وقت دے دیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کیا بات کر رہے ہیں، ایک بندہ 3 سال سے لاپتہ ہے اور آپ مزید وقت کا کہہ رہے ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ کوئی 2002 میں لاپتہ ہوا تواس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کر ازالے کی ادائیگی کا کیوں نا کہا جائے؟
ان کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں میں صرف اسٹیٹ نہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز بھی آتے ہیں، کسی نا کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے، اگر کوئی ایک لاپتہ ہو جائے تو اس کا پورا خاندان مشکلات برداشت کرتا ہے۔
وفاقی وزیر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں، ریاست کا ردعمل ہر لاپتہ شہری کے کیس میں ایک جیسا ہونا چاہیے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے قانون کی حکمرانی ہو ورنہ اسے نہیں روکا جا سکتا، جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے اس پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری، یہ ان ہی کا کیا کرایا ہے۔
عدالت نے حکومت کو 13 دسمبر تک صحافی اور بلاگر مدثر نارو کی فیملی کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سے جواب طلب کر لیا۔