وہ اپنے دوست کے ساتھ گھر سے نکلے اور یہ کوئی پہلی بار نہیں نکلے تھے، لیکن پہلے جب بھی جاتے تھے تو اپنوں کاموں سے فارغ ہو جانے کے بعد وہ گھر آتے اور پھر بچوں سمیت اپنے والدین کے ساتھ بہت اچھا وقت گذارتے تھے۔ لیکن 30 جولائی 2005 کے روز جب وہ اپنے دوست کے ساتھ نکلے تو آج تک ہیںآئے۔۔۔ ان کے بوڑھے والدین ان کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چلے گئے اور ان کے بچے ابھی تک منتظر ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ ضرور آئیں اور وہ دیکھیں گے، اپنے والد کو ۔۔۔ میں اپنے شوہر کا پتہ لگانے کیلئے گھر کی دہلیز سے نکلی اور آج 13برس ہوگئے ہیں ان کو ڈھونڈتے لیکن اب تلک کچھ پتہ نہیںکہ وہ کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ اس کے باوجود میرا یقین ہر گذرتے پل کے ساتھ مزید پختہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ واپس آئینگے اور ضرور آئیں۔ میرا کام کوشش کرنا ہے اور تلاش کی کوشش جاری ہے یہ جاری رہے گی۔ میں اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میری اس تحریک کی وجہ سے 950 لاپتہ افراد کا نہ صرف پتہ چلا بلکہ وہ اپنے گھروں میں اپنے پیاروں کے پاس پہنچ گئے ہیںاور ان دنوں وہ بہترین زندگی گذار رہے ہں۔ اپنوں کیلئے اپنے ملک و ملت کیلئے۔ دیکھیں میں پہلے بھی بارہا یہ کہہ چکی ہوں کہ جب آپ کا کوئی عزیز، بھائی، بہن،بیٹا، بیٹی، ماں، باپ اور شوہر یا بیوی غرض کوئی بھی فوت ہوتا ہے تو آپ کو اس وقت اس واقعے کا شدید دکھ ہوتا ہے لیکن وہ دکھ کچھ مدت کے بعد اک جانب کو ہاجاتا ہے۔
اس عمل سے آپ کواپنے پیارے کی فوتگی سے معلوم ہوجاتاہے کہ وہ فوت ہوگیا اور آپ کے دل کو تسلی ہوجاتی ہے اور آپ مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔ لیکن انہی رشتوں میں سے آپ کا کوئی پیارا جب لاپتہ ہوجاتاہے، آپ کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتاکہ وہ کہاںہے،کس حال میں ہے اور پھر وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ اس وقت کیا کیفیات ہوتی ہیں وہ کیفیات نہ قابل بیاں ہوتی ہیں۔ میں اس کیفیت سے 13برسوں سے گذر رہی ہوں اور مجھے نہیں معلوم کہ میں کب تک گذرتی رھونگی۔ میری آواز اٹھے ہوئے بھی برسوں گذر گئے ہیں میری جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی۔ میرے بچے اب جوان ہوگئے ہیں اب تو نہیں وہ سب تو اس وقت سے اپنے والد کو ڈھونڈ رہے ہیں جب وہ لاپتہ ہوئے ہیں۔
ان کی کاوشیں میرے ساتھ ہیں۔ ساتھ دینے کا تو جہاں تک تعلق ہے ملک کی تمام ہی سیاسی، مذہبی اور سماجی سمیت دیگر جماعتوں نے مجھ سے ملاقاتیں اور ڈھیروں تسلیاں دیں لیکن آج تلک کسی نے بھی اس مسئلے پر اپنا حق ادا نہیںکیا۔ اب جب کہ تحریک انصاف کو عوام نے بڑی مقدار میں ووٹ دیئے ہیں اور عمران خان ملک کے نئے وزیر اعظم بننے جارہے ہیں تو میری امیدیں اور بھی بڑھ گئیں ہیں۔اس سے قبل جتنی بھی حکومتیں گذری ہیں کسی نے بھی ہماری تحریک کو قابل حق توجہ نہیں دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے پاکستان کے بننے والے یہ عمران خان کس طرح سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کام کرتے ہیں، کرتے بھی یا نہیں؟ ہمیں تو ہر صورت میں مسعود جنجوعہ سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا، اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا ہے۔
مسعود جنجوعہ کو 30جولائی کے دن پ13برس ہوگئے ہیں اور اب میں یہ کہتی ہوں کہ انہیں چلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔ ان سمیت دیگر لاپتہ افراد کو بھی بازیاب کرایاجائے۔ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں اور باعزت شہری ہیں ان کا بھی ووٹ تھا اوروہ سامنے ہوتے تو وہ بھی اپنا رائے حق دہی کا استعمال کرتے۔ لیکن افسوس صد افسوس کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں لاپتہ افراد کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ لاپتہ افراد کے بچوں پر انتخابات کا یہ دوران بڑی تکلیف دہ انداز میں گذرا لیکن اک بار پھر یہی کہونگی کہ لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب کو کسی کو احساس نہیں ہے۔ اگر احساس ہوتا تو صورتحال بہت بہتر ہوتی۔ اتنے لوگ لاپتہ نہ ہوتے۔ بہرحال میں آج بھی یہی کہونگی کہ مسعود جنجوعہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قومی سطح پر کام کرنے والی امنہ مسعود جنجوعہ نے اپنی باتیں ختم کیں اور سوالات پورے معاشرے کے سامنے چھوڑ گئیں۔ ملک میں انتخابات کا دورانیہ گوکہ ختم ہوگیا ہے اور ان انتخابات نے پورے معاشرے میں ہی پوری دنیا میں یہ تاثر دے دیا ہے کہ اب پاکستانی عوام تبدیلی کی جانب چل پڑی ہے۔ ملک کے بننے والے نئے وزیراعظم عمران خان سے جہاں پوری قوم کو بڑی امیدیں ہیں وہیں پر امنہ مسعود جنجوعہ کو بھی یہ امیدہے کہ وہ ان کے شریک حیات کو لاپتہ ہوئے 13برس گذر چکے ہیں، اب اس مدت میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ نئی حکومت و حکمران مسعود جنجوعہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کو بازیاب کرایاجائے گا اور انہیں اپنوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ وہ سب اپنی زندگیوں کو اپنے لئے، اپنے پیاروں کیلئے اور اس سے بھی بڑھ ملک و ملت کیلئے بہترین انداز میں گذاریں گے۔ جہاں پوری قوم نے امیدیں وابستہ کررکھیں ہیں وہیں پر ملک کے اندر اور باہر بھی پاکستانیوں نے امیدیں رکھیں گی۔ جلد وہ سب دیکھیں گے کہ ان کی امیدیں کس انداز میں پوری ہوتی ہیںاور اسی کے ساتھ لاپتہ افراد بھی کس طرح سے سامنے آتے ہیں۔ بس وہ دیکھیں گے سب دیھیں گے۔۔۔۔