مسنگ پرسنز اور ڈرون حملے

Election

Election

کہتے ہیں کہ جدائی کا دکھ وہی جانتا ہے جو اس آگ کے سمندر میں سے گزرا ہو لیکن یہاں بات حرف بہ حرف غلط ثابت ہوتی ہے جس ملک کے ساٹھ فیصد سے زائد ارباب بست و کشاد مختلف مواقع پر تنہائی اور جدائی کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل چکے ہوں اور پھر بھی ایسے داغدار دلوں (مسنگ کے لواحقین) کی فریاد ان کو موم نہ کرسکے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے جسم ‘اپنی آنکھوں اور اپنے دماغ کو پہنچنے والی ذہنی اذیت ہی ہرایک کے نزدیک ”کرب ناک اذیت”ہے۔ حیران ہوں کہ ہم ایسی جلیل القدر ہستی کے پیرو ہیں جن کا فرمان ہے ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں لیکن ہمیں مطلق کوئی پرواہ نہیں’یا تو ہم مسلمان نہیں یاپھر جسم میں کوئی آہنی تقسیم کر بیٹھے ہیں۔ مجھے تو ادھر بھی برہمن ‘کھشتری’ویش اور شودر نظر آتے ہیں کہیں یہ تقسیم دولت و طاقت کرتی ہے تو کہیں نسلی برتری۔ الیکشن جیتنے سے پہلے مسنگ پرسنز کی دلجوئی کرنے والے امراء چمپت ہو چکے ہیں۔

گزشتہ دنوں خان صاحب نے ڈرون حملوں کے خلاف خوب رد عمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق2005 سے 2013 کے دوران 282 ڈرون حملے ہوئے جن میں 2573 افراد جاں بحق ہوئے اور 305 زخمی ہوئے۔ ڈرون سے 5,6نقصانات ہیں۔1۔اگر کسی ملک میں حکومتی ایماء کے خلاف ہوں تو خود مختاری پر چنگاب ھلا حرف آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔2۔اس سے عوامی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔3۔پبلک میں خوف وہراس کی فضابرقرار رہتی ہے’معاشرہ بدنظمی کا شکار ہو جاتا ہے۔4 ۔انتہاپسندوں کے ساتھ ساتھ عوام انکے خلاف جنگ کرنے والوں کی بھی مخالف ہوجاتی ہے کیونکہ دونوں اطراف سے عوام ہی کا نقصان ہوتا ہے ۔5۔ڈرون مخالف جذبات سے انتہاپسندوں کیلئے عوامی رائے عامہ کی راہ ہموار ہوتی ہے اور بسا اوقات عوام تقسیم ہو جاتی ہے۔

Drone Attacks

Drone Attacks

ان سب حقائق کے ساتھ ساتھ مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی ہماری نظرمیں زیادہ اہم ہے۔1۔افراد کو کوئی بھی اغوا کر کے لاش مسخ کرے لیکن چونکہ عوام کی حفاظت ریاست کا فرض ہے اسی لیئے لوگوں کی توپوں کارخ پولیس’ایف سی یافوج بنتے ہیں۔2۔ڈرون کے نتیجے میں جولوگ وفات پاتے ہیں انکے لواحقین کو چند دن کے اذیت ناک لمحات میں سے گزر کرصبر آہی جاتاہے جبکہ مسنگ پرسنز کے لواحقین اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ خود بھی انگاروں پر چلتے رہتے ہیں۔3.۔ڈرون حملوں کے خلاف عوام میں غیض وغضب کی لہر غیروں کیلئے دوڑتی ہے جبکہ مسنگ کیسز میں اپنے ہی بددعائوں کا شکار بنتے ہیں۔4.۔ڈرون کی تعداد 282 کے لگ بھگ ہے جبکہ مسنگ پرسنز کی ملک گیر تعداد پانچ چھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔یہ ایک ایسا ناسور ہے جس سے عوام اپنے ہی محافظوں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔5۔ عوام کی آزادی کے حقوق صلب ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے ہم جلیانوالہ باغ میں ہیں اور مسنگ پرسنز کے وارثین کے دل میں جنرل ڈائر کی آمد کا خوف زور پکڑ رہا ہے۔

تمام مندرجہ بالاحقائق کو مدنظر رکھ کرہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈرون حملے نہیں ہونے چاہیئے۔ اس حقیقت کا اعتراف 14 اگست کو اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بانکی مون نے پاکستان آمد کے موقع پر بھی کیا تھا۔ لیکن انکے خلاف ایسی موئثر حکمت عملی ترتیب دینی چاہیئے جس سے عوام کو مہنگائی اور ٹریفک جام جیسے مسائل سے نبردآزما نہ ہونا پڑے۔انٹرنیشنل پریس کانفرنسز کروائی جاسکتی ہیں ‘بینرز اُٹھا کر فٹ پاتھ پر کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔پارلیمنٹ اور اسکے علاوہ پر امن احتجاج کی کئی راہیں اور بھی ہیں۔جذبات کو قابومیں رکھ کر جب زخمی کا علاج کیا جائے تو تب ہی مریض مرض سے شفاء پاتا ہے۔

جہاں تک مسنگ پرسنز کی بات ہے تو یہ ایک ایسی دیمک ہے جو ملک کی سرحدیں بھی کمزور کر سکتی ہے۔ اگر ہمیں پاک فوج سے محبت ہے تو ہمیں ہر ایسی حرکت کو روکنا ہو گا جس سے پاک فوج کا وقار مجروح ہو’ہماری صفوں میں چند ایسے افراد ہیں جو اپنی انا کی خاطر اداروں کو قربان کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان مسنگ افراد کے وارثوں سے بازیابی کا جو وعدہ کر چکے ہیں انھیں وفا کرنا ہو گا۔ عمران خان کو بھی چاہیئے کہ پہلے گھر میں موجود بیماری کا تدارک کرنے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا ساتھ دیں۔ کل پانچ دسمبر کو 33 افراد کو پیش کیا جانا ہے جس کی اُمید کم ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک یوٹرن ہو گا اور جس دن یہ معاملہ حل ہونا شروع ہوا اسی دن عوام سمجھیں گی کہ پرویز مشرف کی پالیسیاں دم توڑ رہی ہیں۔

Supreme Court

Supreme Court

ملک بدل رہا ہے وگرنہ ایسے ملک میں رہنے کو کس کاجی چاہے گا جہاں اسے اپنوں ہی سے خطرہ محسوس ہو (گو کہ یہ کام کوئی اور ایجنسی بھی کرے لیکن پھر بات وہی کہ حفاظت کی ذمہ دار ریاست)۔ تاریخ پر تاریخ دے کر دراصل سپریم کورٹ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایکشن کی صورت میں ان کے پیارے ترس ترس کر مر جائیں۔

ہمیں خاں صاحب کی حب الوطنی پر شک نہیں لیکن انھیں مسنگ پرسنز کیلئے بھی دوٹوک اور مضبوط مئوقف اپنانا ہو گا۔ مسنگ پرسنز بھی ہمارے بھائی اور ہم وطن ہیں اوران سے جڑے ہزاروں رشتے ڈرون حملوں میں اپاہج ہونے والے کے وارثین سے بھی زیادہ اذیت سے دوچار ہیں کیونکہ وہ ان کی آواز’ صورت اور حتی کہ موجودگی کی حقیقت سے بھی بے بہرہ ہیں اور اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ خود بھی موت وحیات کی کشمکش میں ہیں۔

تحریر : محمد سیمی میانوالی
s0333_9838177@yahoo.com