اسلام آباد (جیوڈیسک) ملاکنڈ سے لاپتہ پینتیس افراد سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی، عدالت نے حراستی مرکز میں موجود سات افراد کو چیمبر میں پیش کرنے کا حکم دیدیا، جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں قانون سے کوئی بالاتر نہیں، مشکل حالات سے کسی کو انکار نہیں، مگر آئین میں راستہ موجود ہے۔
سپریم کورٹ میں ملاکنڈ کے حراستی مرکز سے لاپتہ پینتیس افراد سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا لطیف یوسفزئی نے لاپتہ افراد کے بارے میں رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی جیلوں میں چار سو پاکستانیوں کے قید ہیں، پینتیس میں سے گیارہ لاپتہ افراد کی افغانستان میں موجودگی کا امکان ہے۔
دہشتگرد فضل اللہ اور فقیر محمد افغانستان میں موجود ہیں۔ حراستی مرکز سے رہا ہونیوالے افراد افغانستان جا کر دہشتگردوں سے مل جاتے ہیں اور بعد میں سیکورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملاکنڈ کے حراستی مرکز سے لاپتہ مزید سات افراد کا سراغ لگا لیا گیا ہے، ان سات میں سے دو افراد حراستی مرکز میں ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ان سات افراد کو چیمبر میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ اس ملک میں قانون سے کوئی بالاتر نہیں ، ہمارے پاس وہ آپشنز نہیں جو سرکار کے پاس ہیں۔ہم نے تو آئین کی کتاب دیکھ کر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ مشکل حالات سے کسی کو انکار نہیں، مگر آئین میں راستہ موجود ہے۔ ملاکنڈ سے پینتیس لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔