آج کل یہ بات زیربحث ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ چار برس سے لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اس دوران پولیس افسروں ، فرنٹیئر کورپس ، اٹارنی جنرل اور دیگر سرکاری عمال کو متعدد اوقات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف وہی وکیل جو افتخار چوہدری کو کاندھوں پر اٹھا کر بحال کروا رہے تھے ، اب ان کی ریٹائرنمٹ سے پہلے روایتی الوداعی تقریبات منعقد کرنے سے گریزاں ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 2007ء میں بحالی عدالت تحریک کے دوران متفقہ طور پر پورے قوم کے لیڈر بن چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کی شہید لیڈر بے نظیر بھٹو بھی اس صورتحال میں ان کی ذاتی مخالف ہونے کے باوجود یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں کہ افتخار چوہدری ہی ان کے چیف جسٹس ہیں اور وہ انہیں بحال کئے بغیر چین کا سانس نہیں لیں گی۔
بعد میں ان کے شوہر نے صدر اور پاکستان کی جمہوری حکومت کے کرتا دھرتا کے طور پر ایک برس تک افتخار چوہدری کو اپنے عہدے پر بحال نہیں ہونے دیا۔پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد پوری قوم میں سے اس پارٹی کے وابستگان نے خود کو خارج کر لیا اور معزول ججوں کی بحالی کا معاملہ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں میں آ گیا۔ تاہم 2009ء میں کافی کھینچا تانی کے بعد جب چیف جسٹس اور ان کے رفقا آج ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت سے بحال ہوئے تو عدالت عالیہ ملک کے ہر طبقے کے لئے محترم نہیں رہی تھی۔گزشتہ 4 برس کے دوران پیپلز پارٹی کی سرپرستی میں اس کے جیالوں نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا مہم چلائی۔ میڈیا بھی اس سوال پر تقسیم ہو گیا۔
بعض اینکرز اور کالم نویس بدستور اعلیٰ عدالت کے سربراہ کے کردار کے بارے میں بری بھلی باتیں کرتے رہے ہیں۔اس دوران چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ چیف جسٹس کو حاصل خصوصی سوموٹو نوٹس کے اختیار کو کثیر تعداد میں استعمال کیا گیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک اس سے عام شہریوں کے مسائل حل ہوئے اور دوسروں کے خیال میں اس طرح عدالتیں غیر ضروری طور پر انتظامی معاملات میں مداخلت کا سبب بن رہی ہیں۔ تاہم عدالت نے اس قسم کی تنقید کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اپنی روش بحال رکھی۔
سیاست دانوں ، وکیلوں اور دیگر لوگوں کے خلاف توہین عدالت کے مبہم اور غیر واضح قوانین کا استعمال بھی کھلے دل سے کیا گیا۔ حتیٰ کہ اس قانون کے تحت پہلے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک روز کی سزا دی گئی اور بعد میں انہیں قومی اسمبلی کی نشست کا نااہل قرار دیا گیا۔ اس حکم کی وجہ سے گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا اور وہ مئی 2013ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں بھی شریک نہیں ہو سکے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اس سب کچھ کے باوجود گزشتہ چار برس میں عدالت عظمیٰ کے حوالے سے جس بات نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ ججوں کے تبصرے تھے۔ یعنی دوران سماعت بنچ میں بیٹھے ہوئے جج جو ریمارکس دیتے تھے انہیں اخبارات اور ٹیلی ویڑن خبروں میں نمایاں طور سے شائع اور نشر کیا جاتا۔ بلکہ ان کی بنیاد پر طویل دورانئے کے ٹاک شوز منعقد ہوتے اور گزوں کے حساب سے کالم سیاہ کئے جاتے۔عدالتوں کے ججوں کے ریمارکس کی اس قسم کی پبلسٹی کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ نہ پاکستان میں کبھی ایسے ریمارکس کو خاص اہمیت حاصل رہی تھی۔ تاہم گزشتہ 4 برس کے دوران جو عدالتی کلچر سامنے آیا ہے اس میں ان ریمارکس کو بڑی شہرت اور پذیرائی نصیب ہوئی ہے۔ ان ریمارکس کا کیس کے فیصلہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی آبزرویشنز Observations فیصلوں پر اثر انداز ہوتی تھیں لیکن پھر بھی انہیں نمایاں طور سے عام لوگوں تک باقاعدگی سے پہنچایا جاتا رہا ہے۔
Nawaz Sharif
عدالتوں نے بھی اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق ججوں کے دفاتر اور رجسٹرار کی طرف سے خاص طور سے مختلف میڈیا ہاوسز کو ٹیلی فون کر کے ججوں کے روزانہ کے ریمارکس کے بارے میں بتایا جاتا اور یہ خواہش بھی ظاہر کی جاتی تھی کہ انہیں کس طرح پیش کیا جائے۔ اس طرح ان ریمارکس کے زریعے مختلف ججوں اور خاص طور سے چیف جسٹس کے خیالات اور رویے عام لوگوں تک باافراط پہنچتے رہے ہیں۔اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں سے الجھتی رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت بننے کے بعد بعض مبصرین نے یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی تھی کہ عدالتیں اب میاں صاحب کی حمایت کر رہی ہیں لیکن یہ ہنی مون پیریڈ زیادہ طویل نہیں تھا۔ خاص طور سے چیف جسٹس کی سربراہی میں کام کرنے والے بنچ کی طرف سے حکومت کے عدم تعاون کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔ لاپتہ افراد کی تلاش یا انہیں غائب کرنے والوں کا سراغ لگانے کا معاملہ ان میں سرفہرست ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے گزشتہ چند سماعتوں کے دوران اس سوال پر حکومت کی سخت سرزنش کی ہے اور دو روز قبل یہ حکم بھی دیا کہ وزیر دفاع خود پیش ہو کر اس معاملہ کی وضاحت کریں کیونکہ عدالت کے خیال میں مختلف صوبوں سے لوگوں کو غائب کرنے میں ایف سی FC کے علاوہ آئی ایس آئی ISI بھی ملوث ہے۔ اسی اچانک حکم کی وجہ سے وزیراعظم کو خواجہ محمد آصف کو پانی و بجلی کے علاوہ وزارت دفاع کا قلمدان بھی نہایت عجلت میں سونپنا پڑا تھا۔ ورنہ گزشتہ چھ ماہ سے وہ وزارت خارجہ ، وزارت دفاع اور وزارت انصاف کا قلمدان اپنے پاس ہی رکھے ہوئے تھے۔اب وزیر دفاع کو حکم دیا گیا ہے کہ 2 دسمبر تک سب لاپتہ افراد کو حاضر عدالت کیا جائے۔ جبکہ وزیر دفاع کہتے ہیں کہ 10 دسمبر تک یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ لگتا ہے کہ 11 دسمبر کو موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ تک اس معاملے کو کھینچا جاتا رہے گا۔ 12 دسمبر سے چارج لینے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ نرم خو ہیں اور ان کی نگرانی میں سپریم کورٹ کا رویہ اور جوڈیشل ایکٹو ازم کی روایت تبدیل ہو گی۔سپریم کورٹ کی جھڑکیاں ایک طرف تو دوسری طرف منگل کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر وکیلوں پر پولیس کے لاٹھی چارج اور تشدد کے بعد ملک بھر کی وکلاء تنظیمیں بھی چیف جسٹس سے ناراضگی کا اظہار کر رہی ہیں۔ دو ہفتے بعد ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کے اعزاز میں ترتیب دئیے جانے والے عشائیے بھی معطل یا منسوخ کئے جا رہے ہیں۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین کی اجازت کے بغیر منگل کے روز اسلام آباد پولیس وکیلوں پر اتنا ظلم نہیں کر سکتی تھی۔ ڈاکٹر فقیر حسین بھی اس چار سالہ دور میں اپنی متنازعہ کردار کی وجہ سے اکثر خبروں اور تبصروں کا موضوع رہے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا اور اپنے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کرنے والے ایک جج پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم کروایا۔اب وکیلوں کی تنظیمیں اور نمائندے منگل کے سانحہ پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ رجسٹرار چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بہت نزدیک سمجھے جاتے ہیں اور ناقدین کا خیال ہے کہ وہ اکثر اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہیں۔ ایک جج نہ ہونے کے باوجود انہوں نے جج کے طور پر ہی تحفظ حاصل کیا ہؤا ہے۔بحالی عدلیہ تحریک کے نتیجے میں سامنے آنے والی عدالت نے ملک میں انصاف کی فراہمی کے لئے جو رول ادا کیا ہے اس کی اہمیت کا فیصلہ تو آنے والے وقت میں ہی ہو سکے گا۔ تاہم اس دوران بعض معاملات کو بے حد اہمیت حاصل رہی لیکن نتیجہ سامنے نہ آ سکا۔ اس کی ذمہ داری اگرچہ صرف سپریم کورٹ پر عائد نہیں ہو سکتی۔ملک کی تاریخ میں جمہوریت بحال کروانے کا اعزاز حاصل کرنے والے چیف جسٹس کو جانے سے قبل انتہائی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا ہے۔ وکیلوں کی ناراضگی کے علاوہ انہیں نسائی حقوق کی محتسب یاسمین عباسی کی طرف سے دائر کئے جانے والے ریفرنس کا بھی سامنا ہے۔
یاسمین عباسی نے اگرچہ بدعنوانی کے ایک معاملہ میں اپنا تحفظ کرنے کے لئے یہ ہتھیار استعمال کیا ہے تاہم انہوں نے چیف جسٹس اور 6 دوسرے ججوں کے خلاف صدر ممنون حسین کو ریفرنس روانہ کیا ہے۔اس درخواست میں ان کا مؤقف ہے کہ ان 7 ججوں نے 3 نومبر 2007ء کو سابق صدر پرویز مشرف کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے خلاف جو حکم جاری کیا تھا ۔ اس میں سنگین بے قاعدگی اور بے ضابطگی کا مظاہرہ ہؤا تھا۔ اس لئے آئین کی دفعہ 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کو ان ججوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کی ایک ہمدرد بیورو کریٹ کی جانب سے ایک آمر کی ایمرجنسی کے خلاف حکم کی بنیاد پر کارروائی کی درخواست اپنے طور پر نہایت دلچسپ اور سبق آموز واقعہ ہے۔