پشاور: قسم قسم کے جبری قوانین بنا کر اور لاپتہ افراد کا مسئلہ پس پشت ڈال کر اگر حکومت یہ سمجھتی مظلوم لوگ اپنا پیاروں کو بھول جائیں گے اور چپ بیٹھ جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ طاقت کے استعمال سے میڈیا اور اخبارات سے لاپتہ افراد کی آواز غایب کر دینے کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ اپنے گھروں میں خوشیوں بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ مظلوم لوگوں کے درد کے آتش فشاں ہیں جن میں ایک لاوا پل رہا ہے۔”
ان خیالات کا اظہار لاپتہ افراد کی تحریک ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کی چیر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے پشاور میں خیبر پختونخواہ اسمبلی کے سامنے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ریلی کا مقصد کے پی کے اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر کو ایک یادداشت پیش کرنا تھا جس میں خیبر پختون میں جبری گمشدگیوں کی صورت حال کے جایزے کے ساتھ ساتھ مسلے کے حل کے لیے مطالبات کی فہرست شامل تھی۔ ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کے ترجمان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس یادداشت کے لیے سپیکر صاحب کو اس لیے تکلیف دی گئی ہے کیونکہ سپیکر پارلیمانی نظام میں ایک غیر جانب دار عہدہ تصور کیا جاتا ہے اور یہی غیر جانب داری سپیکر کو حکومت اور عوام کے درمیان ایک پل کا درجہ دیتی ہے۔
ریلی میں پورے خیبر پختون خواہ سے جبری گمشدگی سے متاثرہ سینکڑوں خاندانوں نے شرکت کی۔ صوبے سے لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے جبکہ دوسرے طرف خیبر پختونخواہ کی سرزمین بقیہ پاکستان کے جبری اغوا کئے گئے افراد کو چھپانے کے لیے بھی استعمال کی جارہی ہے۔
ریلی کے شرکا سے خطاب کے دوران آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ” ہمارے لیے سب دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ میڈیا کے دوست ہمیں بتا رہے ہیں کہ طاقتور ہاتھ لاپتہ افراد کی خبروں کو روکنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ سپریم کورٹ بالکل خاموش ہے۔ پشاور ہا ئی کورٹ کے احکامات پر صوبائی حکومت عمل کرنے سے انکاری ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی پشاور ہائی کورٹ نے احکامات کی عدم پیروی پر دو سینیر افسران کی تنخواہ روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔ ہم پر امن لوگ ہیں۔
اگر یونہی ہمارا گلا گھونٹا جاتا رہا تو ہمارے پاس بھوک ہڑتا ل کر کے اپنی جانیں دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا” اس کے بعد آمنہ جنجوعہ نے شرکا سے کہا کہ وقت آنے پر بھوک ہڑتال کا اعلان کیا جائےگا تو اس وقت کون کون اس ہڑتال میں شامل ہونا چاہے گا۔ اس پر بیسیوں لوگوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے اور اپنے ناموں کا اندراج ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کے پاس کروا دیا۔
آمنہ جنجوعہ نے مذید کہا کہ 9/11 کے واقعے کے بعد امریکی سازشوں نے پاکستان کو کچھ اس طرح اپنے شکنجے میں لیا ہے کہ اب تک ساٹھ ہزار سے زائد شہری اور سات ہزار کے لگ بھگ پاک فوج کے جوان اور افسر شہید ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مذید کہا کہ 18 ستمبر 2015 کو بڈابیر پرجو دہشت گرد حملہ ہوا جس میں کیپٹن اسفندیار جیسے کئی پاک آرمی اور ایر فورس کے جوان شہید ہوئے ایسے ہی لاتعداد حملے اس سے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ قوم جنگی بنیادوں پر سر جوڑ کر بیٹھے اور داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کیا جائے۔
امریکہ کی لگائی ہوئی جنگ سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں کو سمیٹا جائے۔ اب تک جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان پر اصرار نہ کیا جائے۔ جبری لاپتہ افراد جیسے گھمبیر مسلے حل کیے جائیں تاکہ ملک دشمن عناصر اسکا فائدہ اٹھا کر ہمارے وطن کے وقار کو ٹھیس نہ پہنچا سکیں۔ بیگناہوں کی رہائی اور مجرموں کو سزا دلانے کا خواب صرف فوری اور سستے انصاف کی فراہمی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی ترقی اور کامرانی کا خواب بھی تبھی پورا ہو سکے گا۔