فوجی طاقت کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال اسی صورت کیا جاتا ہے جب تمام حربے ناکام ہو جاتے ہیں اور اسکے علاوہ کوئی اور حل نہیں رہتا کہ اپنے مخالف کو اپنے ہونے کا احساس ہتھیاروں کی زبان سے کرایا جائے۔ ہمارے ہاں آج کل میڈیا پر ہر شخص یہ کہ رہا ہے کہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بجائے طاقت کی زبان میں بات کی جائے سوائے چند کے یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی بھی اس علاقے میں جہاں پہ ممکنہ آپریشن ہونا ہے نہیں گئے انھیں زمینی حقائق کا اس طرح سے اندازہ ہی نہیں جس طرح اسکا اندازہ آپریشن کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو ہے۔
ریاست کا ایسے علاقوں میں اپنی رٹ کو قائم رکھنا جہاں پر اسکا قبضہ ہے اسکی ذمہ داری ہے اور اسکو اس مقصد کے لیئے کوئی بھی اقدام اٹھانے کا حق بھی حاصل ہے لیکن اگر ریاست کے چلانے والے عقل و دانش اور حکمت عملی سے عاری ہونگے تو وہ ریاست پہ حکمرانی کا حق کھو دیتے ہیں اور اس پر حکمرا نی کرنے والے دوسرے لوگ آجاتے ہیں جو جب چاہیں اس ریاست کو چلانے کے بنیادی اصول ہی جس کو آئین کا نام دیا جاتاہے کو بدل دیں یا اس میں تبدیلی کر لیں اور یہی ریاست انکے اس اقدام کو بھی جائز قرار دے دیتی ہے۔
شدت پسندوں کے ساتھ با مقصد مذاکرات کا راستہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے جتنی مرضی نظریں چرائی جائیں یا اس راستے میں اپنی تحقیر محسوس کی جائے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی اب اس میں ہم جتنی دیر کریں گے اتنا ہی اس رستہ پر آتے ہوئے تکلیف ہو گی۔ یہ درست ہے کہ جو شرائط شدت پسندوں کے سب سے بڑے گروپ تحریک طالبان پاکستان نے رکھی ہیں وہ قابل عمل نہیں ہیں لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اسکو یہیں پر چھوڑ دیا جائے کیوں کہ یہ گروپ اپنے ساتھ بہر حال ایک ایسا نعرہ لیئے ہوئے ہے جسکو ہم نے ایک عرصہ تک ” پروموٹ ” کیا ہے اور وہ نعرہ پوری مسلم دنیا میں بھرپور مقبولیت رکھتا ہے اور وہ عنصر اور نعرہ جہاد ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں ایک ایسی لڑائی کی بنیا د ڈالی جو کہ نہ ختم ہونے والی تھی اور اس لڑائی میں ہم نے بھرپور حصہ ڈالا ہے یہ ایک عرصہ پر محیط غلطیوں اور جرائم کا خمیازہ ہے جو ہم آج بھگت رہے ہیں لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بدستور غلطیاں کرتے جائیں گے یا اب ماضی کی روش کو ختم کر کے ایک نئی اور روشن صبح کی بنیاد ڈالیں گے؟ وہ لوگ جو حکومت کو آپریشن کا مشورہ دے رہے ہیں وہ پتہ نہیں کن بنیادوں پر یہ مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ یہ آگ جس کا ہمیں سامنا ہے وہ صرف وزیرستان میں نہیں ہے وہ اب ہمارے گلی محلوں تک پھیل چکی ہے اور کیا آپریشن کے شروع ہوتے ہی یہ حملے بند ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں ہونگے بلکہ پوری شدت سے پورے ملک میں ہونگے جس کو روکنا ہماری ” پیرا ملٹری فورسز ” کے بس کی بات نہیں ہے۔
Military Forces
ہر گلی اور ہر محلے سے آپکو ایک نہ ایک ایسا بندہ ضرور ملے گا جوان شدت پسندوں کے حق میں ہو گا کیونکہ جو ریاست یا حکومت انکے خلاف آپریشن کرنے جا رہی ہے اس نے آج تک نچلی سطح پر کچھ بھی منتقل نہیں کیا نہ تعلیم میں کوئی کارنامہ انجام دیا اور نہ ہی صحت کی بنیادی سہولیات لوگوں کو میسر ہیں۔ بے روزگاروں کی فوج تیار بیٹھی ہے، انصاف ناپید ہے لوگوں کو حکومت اور اس نظام پر اعتماد ہی نہیں ہے، انتخابات میں دھاندلی کا شور ہر طرف سے مچایا جاتا ہے، بجلی اور گیس کے مسائل منہ کھولے بیٹھے ہیں، پڑوسی ممالک ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں، ہماری معیشت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے، سرمایہ کاری کا فقداان ہے محصولات کی مد میں آمدن بہت کم ہے جس کی وجہ سے باقی دنیا پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
عقائد کی بنیاد لوگ تقسیم در تقسیم ہو چکے ہوئے ہیں یہ وہ چند مسائل ہیں جنکی موجودگی میں کوئی بھی ریاست اگر جنگ کا راستہ اختیار کرتی ہے تو تباہی اسکا مقدر بنتی ہے اب ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مذاکرات اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے مذاکرات جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں مذاکرات کے لیئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کرنا ہو گا اور یہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئے ہو سکتا ہے کہ وہ طاقتیں جو مذاکرات نہیں چاہتیں وہ اسکو سبوتاژ کریں چاہے وہ طاقتیں تیسرے ہاتھ کی صورت میں ہوں یا پہلے اور دوسرے ہاتھ کی۔ جب تک ہم اپنی پولیس کے نظام کو مکمل طور پر سیاست اور رشوت سے پاک نہیں کر لیتے۔
ایک مخصوص فورس دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے نہیں بنا لیتے، سزا اور جزا کے لیے ایک مربوط نظام وضع نہیں کر لیتے، اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر لیتے، بجلی اور گیس کی روزانہ کی سات ارب کے قریب کی چوری نہیں پکڑ لیتے، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانی پر قابو نہیں پالیتے، عوام کا اعتماد اس نظام پر بحال نہیں کر لیتے تب تک ہم کسی سے بھی جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
ہمیں ان شدت پسندوں سے مذاکرات کو خلوص نیت سے آگے بڑھانا چاہئے ہمیں دنیا کو یہ یقین دلانا چاہئے کہ ہم شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور آپ بھی شدت پسندی کو ختم کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ امریکہ کو یہ باور کروانا ہوگا کہ ہم ایک خود مختار ملک ہیں اور اسے ہماری خود مختاری کا خیال رکھنا ہو گا ڈروں حملوں کو بند کرنا ہوگا کیونکہ اس سے شدت پسندی کو تقویت ملتی ہے اور شدت پسند اس جنگ کو مذاہب کی جنگ کا رنگ دے دیتے ہیں اور جہاد کے جذبہ سے سرشار لوگ آپکو پوری دنیا سے مل جائیں گے ہمیں سب سے پہلے ان لوگوں کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ ہم کوئی ایسا قانون جو اسلام کے اصولوں کے مخالف ہو نہیں بنائیں گے۔
اسلام کی صحیح تعلیمات کو عام کریں گے۔ وہ لوگ جو سر کاٹ ان سے فٹبال کھیلتے ہیں انکی اصلیت کو عوام پر ظاہر کریں کیونکہ یہ اسلام کی تعلیمات کے سرا سر خلاف عمل ہے۔ مساجد، اما بارگاہوں اور اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کی اہمیت کو عام کریں اور اس سلسلے میں پورے ملک سے 100 جید علما پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو امن و آشتی اور آپسی اختلافات کو کم کرنے پر کام کرے یہ کمیٹی ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی جگہ لے۔ جو لوگ اسکے باوجود بھی ہتھیار ڈالنے کے لیے راضی نہ ہوں ان کے خلاف مخصوص قسم کی کارروائی کی جائے اور اس کارروائی کے دوران کوشش کی جائے کہ بے گناہ لوگوں کا جانی نقصان نہ ہو اور اس کارروائی کے بعد وہ لوگ جو اس سے متاثر ہوں کو مکمل طور پر ریلیف دیا جائے۔
یہی عمل ہمیں بلوچستان میں بھی کرنا ہو گا۔ چھوٹے صوبوں کو انکے حقوق دینے ہونگے اور انکی محرومیاں دور کرنا ہونگی۔ اس میں ہمارے میڈیا کو بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا ایک دوسرے سے بازی لے جانے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کو ترک کر کے اپنے پروگراموں کو بامقصد گفتگو پر مشتمل کرنا ہو گا، سنسنی اور بے مقصدیت سے دور رہنا ہو گا۔ انسانی تایخ اس بات کی گواہ ہے کہ قوموں کو اپنی غلطیاں سدھارنے کے مواقع ضرور ملتے ہیں اور وہ قومیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتی ہیں کامیابی انکا مقدر بنتی ہے اور جو غلطی در غلطی کرتی ہیں وہ کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتیں چاہے دنیا کی ساری اہلیت انکے اندر موجود ہو۔
Zahid Mehmood
تحریر : زاہد محمود فون نمبر: 03329515963 zahidmuskurahat1122@gmail.com