تعلیم کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا اور بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدانوں نے پاکستانیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر خوش قسمتی سے ان سیاسی ٹھگوں کی دغابازیوں سے بچ بچا کرکچھ بچے پڑھنے میں بازی لے گئے کسی دور میں گھوسٹ سکولوں کا بڑا تذکرہ ہوا کرتا تھا اور دیہاتوں کے تو اکثر سکولوں میں گائے اور بھینسیں ہی باندھی جاتی تھی اور کچھ سکولوں میں اساتذہ کرام بچوں سے زاتی کام کروا کر وقت گذارا کرتے تھے مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا شعبہ بھی ترقی کرنے لگا اور اس شعبہ کو بطور بزنس بنا لیا گیا۔
امیر لوگوں کے بچے ان پرائیوٹ سکولوں میں چلے گئے جہاں وہ اچھے ماحول میں اچھی تعلیم حاصل کرکے افسر بننا شروع ہوگئے جبکہ غریب کا بچہ سرکاری سکول میں پڑھ کر کلر ک ، نائب قاصد اور درجہ چہارم کی ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے سفارشیں ڈھونڈنے پر مجبور ہو گیا اس دہرے نظام تعلیم نے نہ صرف امیر اور غریب کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی بلکہ غریب پاکستانیوںمیں احساس محرومی بھی پیدا کردیا ملک کے غریب عوام کو تعلیم جیسی نعمت سے محروم رکھنے کے حکومت نے مزید کام یہ کیا کہ جی ڈی پی کا صرف 1.3فیصد تعلیم کے لیے خرچ کیا۔
جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک میں اس کی شرع بہت زیادہ ہے اسکے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب میں بھی مختلف تبدیلیوں کا ذکر چلتا رہتا ہے ان سب بے بسی کی باتوں کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار بات یہ ہے کہ ہمارے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مجاہد کامران کی شخصیت ہے جن سے بطور ایک طالبعلم ہم سب کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے راوپنڈی میں انکے اعزاز میں منعقدہ ایک تقعیب میں شرکت کا موقعہ ملا تو انکے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقعہ ملا جہاں پر نہ صرف مجاہر کامران اورانکے دوستوں نے کھل کر باتیں کی وہیں پر مجاہد کامران کی چھوٹی بہن نے بھی مجو بھائی کے بچپن کے قصے خوب سنائے جنہیں سن کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ اتنے بلند عہدے پر پہنچنے والے مجن بچپن میں کتابی کیڑے نہیں تھے۔
بلکہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کے ناطے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ نہ صرف پیار کی تمام حدیں بھی عبور کی بلکہ بڑے ہونے کے ناطے رعب بھی خوب جمایا اس وقت ایک اکلوتا ریڈیو مجوبھائی کے قبضہ میں ہی رہتا تھا جسے لگا کر پڑھائی کیا کرتے تھے باجی نے ایک واقعہ سنانتے ہوئے کہا کہ اکثر ابو جو پیشے کے اعتبار سے ایک صحافی تھے جب بھی گھر سے جاتے تو تھوڑی دیر بعد وہ واپس گھر کا چکر لگا کر مجاہد کامران کا ضرور پتا کرتے کہ کہیں وہ گھر سے غائب تو نہیں ہو گیا۔
Pakistan
جبکہ دفتر جاکر بھی فون پر امی سے مجاہد کامران کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے اور امی جان کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ وہ ابو کو مجاہد کامران کے بارے میں جھوٹ بتاتی ایک روز ابیو گھر سے گئے تو مجاہد کامران جو پتنگ بازی کا بڑا شوقین تھا ہماسیوں کی چھت پر پتنگ اڑانے چلا گیا کچھ ہی دیر بعد جب ابو گھر واپس آئے تو مجاہد کامران گھر پر نہیں تھا جس پر ابو نے آواز دی مجن(مجاہد کامران کے والد پیار سے مجن کہہ کر پکارتے تھے )تو مجاہد کامران فورنا گھر پہنچے جس پر انکی اچھی خاصی دھلائی بھی ہوئی (دھلائی والی بات آف دی ریکارڈ ہے۔
جو باجی نے پروگرام کے بعد بتائی تھی )مگر ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ مجاہد کامران نہ صرف ایک زندہ دل ،دلیر اور سپورٹس مین ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں حیرت انگیز طور پر تیز تھے بچپن میں ہی نظمیں اور غزلیں یاد کرلیا کرتے تھے مسز مجاہد کامران نے اپنے مجاہد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کو کتابوں کا بلکل ایسے ہی ہے جیسے بچوں کو ہوتا ہے گھر میں بھی ہر وقت کتابوں کا ہی سماء رہتا ہے بیڈ پر بڑی مشکل سے کتابیں اکھٹی کر کے تھوڑی سی جگہ بنا کر لیٹنا پڑتا ہے۔
جبکہ گاڑی میں بھی دوران سفر ہر طرح کی کتابیں انکے ہمراہ رہتی ہیں جن میں شاعری سے لیکر فزکس تک شامل ہوتی ہیں جبکہ آخر میں مجاہد کامران نے جس طرح کھل کر اظہار خیال کیا وہ بھی حیرت انگیز تھا انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق دور میں جس طرح نصاب میں تبدیلی کی گئی تھی آج کی دہشت گردی اسی کا ثمر ہے امریکی یو ایس ایڈ پر جناب مجاہد کامران کا تبصرہ بھی حیران کن تھا کہ یہ امریکی ایجنسی ہے جو اپنے مفادات کے لیے پاکستان میں پیسہ خرچ کرتی ہے انہوں نے پاکستان میں تعلمی نظام کے حوالہ سے خامیوں کا جو ذکر کیا وہ بھی اپنی جگہ ایک سوال اور بات پھر وہی پر آکر رک جاتی ہے۔
اس ملک کے حکمران ہی اس ملک کی عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں تو کسی اور سے کیا گلہ ہمیں تو اپنوں نے ہی لوٹا لیا ہے حکمرانوں کے بھیس میں راہزن ہمیں ملے ہوئے ہیں جن سے آزادی حاصل کیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے مجاہد کامران سے قبل اکرم چوہدری وائس چانسلر نے اپنے جذباتی خیالات میں حاضرین کو بھی رلا دیا انہوں نے کہا کہ ہم لوگ اس وقت خاموش رہتے جب ہمارے محسنوں کو بے عزت کیا جاتا ہے ۔
جو قوم اپنے محسنوں کے ساتھ توہیں آمیز رویہ برداشت کرسکتی ہے اسکا مستقبل بھی توہین آمیز ہی رہتا ہے انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیرخان سے پوری قوم کی طرف سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ہم سب شرمندہ ہیں کے سابق آمر ار ڈکٹیٹر نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا اس پر ہم خاموش بیٹھے رہے امید ہے محسن پاکستان ہماری اس نادانی کو معاف فرمادیں گے۔